امریکہ میں گذشتہ دنوں خنزیر کے دل کی انسانی جسم میں کامیاب پیوندکاری کے حوالے سے انکشاف کیا گیا ہے کہ اس عمل میں کوکین کی معمولی مقدار بھی مددگار ثابت ہوئی تھی۔ اس پیوندکاری کی سربراہی ایک پاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹر محی الدین نے کی تھی۔
اس کامیاب آپریشن کا تجربہ رواں ماہ کے آغاز پر یونیورسٹی آف میری لینڈ میڈیکل سینٹر میں کیا گیا تھا۔
دی انڈپینڈنٹ نے امریکی نیوز ویب سائٹ ’وائس‘ کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’سرجنز نے آپریشن سے پہلے خنزیر کے دل کو زندہ رکھنے کے لیے کوکین کے محلول کا استعمال کیا تھا۔ کیوں کہ گذشتہ ناکام آپریشنز میں عطیہ کیے جانے والے اعضا ڈونر سے نکال کر مریض تک لانے کے دوران زندہ نہیں رہ پاتے تھے۔‘
رپورٹ کے مطابق میری لینڈ کے سرجنز نے اس مسٔلے کا حل کوکین کے محلول سے نکالا جس میں کورٹیسول اور ایڈرینالین بھی شامل تھے تاکہ پیوندکاری کے کامیاب ہونے کے لیے دل کو 24 گھنٹے تک قابل استعمال حالت میں رکھا جا سکے۔
ڈونر اعضا کو محفوظ بنانے والا یہ محلول سویڈش کمپنی XVIVO نے بنایا تھا۔
ڈاکٹرز کی جانب سے اس محلول کے استعمال کی طلب سامنے آنے کے بعد ڈرگ انفوسمنٹ ایجنسی (ڈی ای اے) نے اس کی چھان بین کی تھی۔
میری لینڈ ہسپتال میں کارڈیک زینو ٹرانسپلانٹیشن محکمے کے پاکستانی نژاد ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد محی الدین نے ’وائس‘ کو بتایا کہ اس محلول نے دل کی عمر کو کافی حد تک بڑھا دیا تھا۔
ڈاکٹر محی الدین نے کہا ’ہم 48 گھنٹوں تک ناکام ہو رہے تھے۔ پھر ہم نے یہ محلول استعمال کیا ھس سے دل اچھی طرح محفوظ ہو گیا اور بہت اچھی طرح دھڑکنے لگا۔‘
دل کی پیوندکاری کے لیے محلول میں شامل کوکین کے کردار پر پوری طرح سے تحقیق موجود نہیں ہے۔ لیکن ڈاکٹر محی الدین نے اس بارے میں کہا کہ ’اگر اس عمل کو یہاں کی ریگولیٹری ایجنسیوں سے بھی منظور کر لیا جائے تو یہ ایک بہت بڑی پیش رفت ہو گی۔ جیسا کہ ہم عام طور پر دو سے تین گھنٹے میں ڈونر سے دل حاصل نہیں کر سکتے۔ اس سے ہمیں دوسری ریاستوں سے دل حاصل کرنے کا موقع مل سکے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
غیر انسانی اعضا کی انسانوں میں پیوند کاری کو زینو ٹرانسپلانٹیشن کہا جاتا ہے اور بہت سے لوگ اسے عطیہ کے لیے دستیاب انسانی اعضا کی کمی کا حقیقت پسندانہ حل سمجھتے ہیں۔ پچھلے چند مہینوں میں خنزیر کے گردوں کی انسانی مریضوں میں کئی کامیاب پیوند کاریاں کی گئی ہیں۔
ڈاکٹر محی الدین نے وائس کو بتایا کہ جب وہ اپنے آبائی وطن پاکستان کے شہر کراچی میں بڑے ہو رہے تھے تو گھر میں ’خنزیر‘ کا لفظ بھی بولنا ممنوع تھا۔
انہوں نے بتایا ’میری والدہ خنزیر کا لفظ بولنے پر مجھے غرارے کراتی تھی۔ یہ لفظ میرے خاندان میں بولنا تک منع تھا۔ ایسا کرنا ہمارے گھر میں حرام تھا۔‘
گذشتہ دنوں ایک سویڈش بائیوٹیک کمپنی ریویویکور کی جانب سے فراہم کردہ سور کے دل کا ایک 57 سالہ شخص میں پیوندکاری کی گئی جو اب تیزی سے صحت یاب ہو رہا ہے۔
ڈاکٹر محی الدین نے کہا کہ ’صرف امریکہ میں ایک سال کے دوران تقریباً ڈیڑھ لاکھ افراد عطیہ شدہ اعضا نہ ملنے کی وجہ سے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دنیا بھر میں مزید کتنے لوگ صرف اعضا دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہوں گے۔ اگر یہ طریقہ کار کامیاب ہو جاتا ہے تو ہم ان میں سے تقریباً تمام مریضوں کو بچانے کے قابل ہو جائیں گے۔‘
1992 میں پاکستان سے امریکہ منتقل ہونے والے ڈاکٹر محی الدین نے کہا ’ کئی بار میں نے سوچا کہ میں یہ نہیں کرنا چاہتا۔ زینو ٹرانسپلانٹیشن کے حوالے سے میرے دماغ میں بہت سے خدشات تھے۔ میں ہمیشہ سوچتا تھا کہ کیا ہم اسے کبھی کلینک تک لے جا سکیں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا ’ہم نے خنزیر کے جینز کو اس طرح سے جنیاتی طور پر تبدیل کر دیا کہ یہ امیونولوجی کے لحاظ سے انسانوں کے تھوڑا قریب ہو جائے۔ ہم نے اسے مکمل طور پر انسانی جینز میں تبدیل نہیں کیا لیکن ہم نے جینز کو اس طرح تبدیل کیا کہ انسانی جسم اسے مسترد نہ کرے۔‘
پیوندکاری کے عمل پر مزید بات کرے ہوئے ڈاکٹر محی الدین کا کہنا تھا کہ ’یہ عمل ایک انسان سے انسان میں پیوندکاری کی طرح ہے جہاں آپ کو کئی ادویات کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ آپ اسے کنٹرول کر سکتے ہیں۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا ہوتا تو چند منٹوں میں جسم اسے مسترد کر دیتا اور عضو بیکار ہو جاتا۔‘
© The Independent