اباسین دریا کے جتنے رنگ اور روپ ہیں، اتنے ہی اس کے نام بھی ہیں۔ لداخ کے باسی اسے سینگے تسانگپو کہتے ہیں۔ بلتیوں کے نزدیک یہ گیتمش ہے۔ پشتون اسے اباسین یعنی دریاؤں کا باپ کہتے ہیں۔
قدیم پاکستان کے باسیوں نے اس دریا کو سندھو کا نام دیا، جو فارسی زبان میں جا کر ہندو بن گیا، اور پورا ملک اسی دریا کی مناسبت سے ہندوستان اور یہاں کے بسنے والے ہندو کہلاانے لگے۔
اس دریا کو ہم نے کئی رنگ بدلتے دیکھا۔ دسمبر میں سکڑ چکے دریا کی ہیبت میں کمی آئی اور نہ ہی برف باری کے موسم اسے منجمد کر سکے۔ سال ہا سال سے دریائے سندھ ہمیں ملتا رہا اور ہر بار نئے رنگ اور تازہ روپ میں ہمارا استقبال کرتا رہا۔
ہم نے میدانی علاقوں میں اسے دیکھا تو حیرت سے گنگ رہ گئے۔ پل غازی گھاٹ سے اس دریا کے کچھ رنگ پوشیدہ رہے مگر طغیانی کی شدت میں کمی نہ آئی۔
یہ دریا سکردو کی تنگ چٹانی دیواروں سے گزرا تو کسی تنگ ذہن جاگیردار کی مانند بپھرا ہوا ملا۔
یہی دریا جب کچورا موڑ اور سکردو کی گمبا بستی کے پہلو میں پھیلے ریتلے پاٹ میں دیکھا گیا تو وسعت کے باعث نرم اور دوست مزاج ہو چکا تھا، بالکل کسی تعلیم یافتہ معتدل یار کی طرح، جو درگزر اور مہربانی کا عادی ہو چکا ہو۔
سندھ دریا کی یہی محبت اور بدلتے روپ ہمیں مرول تک لے گئے۔ مرول ٹاپ ہماری دسترس سے دور رہا۔
وہی مرول جہاں سے پہلی بوند اس دریا کا ماخذ بنی اور پھر روایات جنم لینے لگیں۔ کہانیوں کو کردار سونپے جانے لگے۔ ثقافت پھوٹ پڑی اور جہاں سے یہ دریا گزرتا گیا داستان چھوڑتا گیا۔
یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے
سویڈن کے مہم جو سیون ہیڈن نے لکھا تھا ’میں یہاں سنگی خباب پر کھڑا دریائے سندھ کو زمین کی آغوش سے جنم لیتے دیکھ رہا ہوں۔‘
وہ سیون ہیڈن ہی تھا، جس نے 1907 میں دریائے سندھ کا منبع کیلاش کے پہاڑوں میں دریافت کرتے ہوئے انگریز مہم جو ویم مور کرافٹ کے نظریے کو غلط ثابت کیا کہ سندھ دریا جھیل مانسرور سے نکلتا ہے۔
سندھ دریا تین ہزار 180 کلومیٹر کا سفر کر کے بحیرۂ عرب سے جا ملتا ہے۔
آغاز سے تربیلا تک 1100 میل کا سفر کرتا ہوا سندھو سائیں اٹک سے، جناح بیراج تک ڈیڑھ سو میل اور کالا باغ سے اپنے ڈیلٹا تک 800 میل کا سفر طے کرتا ہے۔
کبھی دریائے سندھ کا ڈیلٹا 3500 کلومیٹر تھا، مگر اب یہ سکڑ کر 240 کلومیٹر رہ گیا ہے۔
ہر سال دریائے نیل کی نسبت سندھو سائیں میں دوگنا پانی آتا ہے اور یہ پانی تبت سے شروع ہو کر نانگا پربت سے آنے والے رائے کوٹ گلیشیئر تک سینکڑوں ندی، نالوں، دریاؤں اور آبشاروں کی شمولیت سے بڑھتا جاتا ہے۔
سندھو تبت سے شمال کی جانب بہہ کر انڈیا میں داخل ہوتا ہے اور پھر وہاں سے جنوبی سمت بہتا ہوا پاکستان میں۔
اپنے مقام آغاز کی بلندی 16 ہزار فٹ سے دریائے سندھ اترتا اترتا بحیرہ عرب کی سطح سے صرف 200 فٹ بلند رہ جاتا ہے اور پھر آخر کار چھوٹی چھوٹی ندیوں کی مانند سمندر میں شامل ہو جاتا ہے۔
سنگے خباب سے شروع ہوتا سفر دریائے سندھ کو تبت سے دم چک اور پھر یہیں سے کشمیر تک لے جاتا ہے۔
تاشی گانگ کے مقام پر سندھ سائیں کا پہلا معاون دریا ’زنکسار‘ اس میں گرتا ہے۔ وانخو گاؤں کے عقب سے گزر کر سندھ دریا ’مرول ٹاپ‘ سے پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔
یہی وہ منزل ہے جہاں لداخ دریا سندھو سائیں کا رزق بنتا ہے۔ دریائے شیوک وہ پہلا بڑا دریا ہے، جو چھومندو کے علاقے میں سندھ کا حصہ بنتا ہے۔
ریت کے میدان ’سفرنگا‘ کے درمیان سے ہوتا ہوا یہ اباسین سکردو پہنچتا ہے، جہاں سے پہلے ’کے ٹو اور سکولے‘ سے آنے والا دریائے برالدو اور شگر باہم مل کر سندھ کی طغیانی بڑھاتے ہیں۔
شاہراہ سکردو کے ساتھ ساتھ جب یہ دریا جگلوٹ پہنچتا ہے تو دریائے گلگت اپنا وجود سندھو کے سپرد کر دیتا ہے۔
دریائے گلگت میں تب تک دریائے ہنزہ، دریائے نگر، شمشال نالہ، دریائے غذر اور نلتر کے پانی شامل ہو چکے ہوتے ہیں۔
یہاں سے ذرا آگے بونجی کے مقام پر دیوسائی، راما، منی مرگ اور برزل سے آنے والے ندی نالے دریائے استور بن کر سندھ کا حصہ بنتے ہیں۔
رائے کوٹ کے مقام پر نانگا پربت کے برف پانی سندھ میں شامل ہوتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چلاس سے گزر کر جب یہ دریا تربیلا کو 30 میل دور سے سلام پیش کرتا ہے تو اٹک سے کچھ پہلے دریائے کابل اپنے معاون دریاؤں چترال اور سوات سمیت سندھ میں دھمال ڈالتے ہوئے اپنا آپ کھو دیتے ہیں۔
یہ دریا پنجاب میں داخل ہوتا ہے تو دریائے ہرو بھی اپنا پانی لیے سندھو سائیں کا منتظر ہوتا ہے۔
کالا چٹا پہاڑی سلسلے سے گزر کر خوشحال گڑھ کے قریب سائیں کوہاٹی اور ٹبری ندیوں کی سلامی وصول کرتا ہے۔ پیر پھائی کے قریب دریائے سواں بھی سندھو سائیں کا منتظر ہوتا ہے۔
پنجند کے مقام پر پانچ دریا باہم ملتے ہیں، جہاں دریائے چناب مٹھن کوٹ پہنچ کر سندھ میں غرق ہو جاتا ہے۔
سکھر تک اپنا وجود اور وقار برقرار رکھتا ہوا سندھو سائیں ٹھٹھہ اور بدین کے قریب ندیاں بن کر بحیرۂ عرب کے سپرد ہو جاتا ہے۔
سندھ دریا اس لیے بھی فطرت شناس لوگوں کے لیے مقدس ہے کہ اس میں جھیلوں، وادیوں، میدانوں، آبشاروں، برف جزیروں اور دنیا کے دوسرے بڑے برفانی بلندیوں کا لمس شامل ہے۔
اس دریا کے بنائے ہوئے قدرتی راستوں کے سبب پہاڑوں پر جو شہر آباد ہیں وہ اسی دریا کے بہاؤ کی وجہ سے ہیں۔
اسی دریا کے سبب ہم وہاں تک پہنچ جاتے ہیں، جہاں جانا فطرت سے پنجہ آزائی کے مترادف ہے۔ پاکستان کی سیاحت اور زراعت دریائے سندھ کے مرہون منت ہیں۔