دریائے سندھ کے کٹاؤ سے لیہ میں آبادیوں اور زمینوں کو خطرہ لاحق

دریائی کٹاؤ سے کئی مکانات گر چکے ہیں اور کئی بستیاں خطرے میں ہیں، سینکڑوں گھروں کے مکین پریشان ہیں۔

دریائے سندھ پاکستان کا سب سے بڑا دریا ہے اور زرعی آبپاشی، بجلی کی پیداوار، ماہی گیری اور نقل و حمل سمیت کئی دیگر وجوہات کی بنا پر پاکستان کی معیشت میں ایک کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔

یہ دریا صوبہ پنجاب کے جنوبی اضلاع سے گزرنے کی وجہ سے اطراف کی ہزاروں ایکڑ زمینیں سیراب کرتا ہے۔ مگر بعض علاقوں میں اس کے کٹاؤ سے ان دنوں فصلوں اور آبادیوں کو بھی خطرہ لاحق ہے۔

ضلع لیہ کی تحصیل کروڑ لعل عیسن کے گاؤں راکھواں کے قریب کٹاؤ سے سینکڑوں ایکڑ فصلیں دریا برد ہونے لگی ہیں۔

اسی طرح لیہ کے نواحی علاقہ پہاڑ پور کے نشیبی علاقے موضع کالرو میں دریائی کٹاؤ کا سلسلہ جاری ہے۔

دریائی کٹاؤ سے کئی مکانات گر چکے ہیں اور کئی بستیاں خطرے میں ہیں، سینکڑوں گھروں کے مکین پریشان ہیں۔

اہل علاقہ کے مطابق گذشتہ کئی دھائیوں سے اس مقام پر دریا رخ بدلتا ہے جس کی وجہ سے زمین کا کٹاو بڑھتا جارہا ہے۔

کچھ عرصے بعد فصلیں اور کئی گھر دریا کی نذر ہوجاتے ہیں۔ مگر حکومتی ادارے کوئی مستقل حل نکالنے کی بجائے عارضی کام کر کے چلے جاتے ہیں۔

محکمہ انہار کے حکام کے مطابق دریائے سندھ کے کناروں پر لیہ کے جو جو گاؤں کٹاؤ سے متاثر ہو رہے ہیں ان کو بچانے کے اقدامات عارضی طور پر کر دیے جاتے ہیں۔

مستقل بند تعمیر کرنے کے لیے حکومت کو پی سی ون بنا کر دیا ہوا ہے۔

پرووینشل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے ترجمان کا کہنا ہے کہ دریائے پنجاب اور دریائے سندھ کے جن علاقوں سے کٹاؤ کی شکایات موصول ہوئی ہیں وہاں کی انتظامیہ کو حفاظتی اقدامات کے لیے خطوط لکھے گئے ہیں۔

دریائی کٹاو سے نقصانات

موضع پہاڑ پور کی بستی کالرو کے رہائشی محمد ندیم نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہاں چند سالوں کے بعد دریائی کٹاؤ شروع ہوجاتا ہے جس سے فصلیں، مکانات دریا برد ہوجاتے ہیں۔ ان دنوں بھی دریا کے کٹاؤ سے کئی گھر گر چکے ہیں اور فصلیں تباہ ہوچکی ہیں۔ لیکن حکومت کی جانب سے کوئی مستقل حل نہیں کیا جا رہا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’جب دریا کٹائی کرتا ہے تو دریا کے کناروں بستیوں میں خوف پھیل جاتا ہے۔ سخت محنت سے پائی پائی جوڑ کر کچے پکے مکان رہنے کے لیے بناتے ہیں۔ لیکن عارضی سپر چند سالوں میں پانی سے ختم ہو جاتے ہیں پھر دریا کی تیز لہریں فصلوں اور آبادیوں میں داخل ہوکر تباہی پھیلا دیتی ہیں۔ ہماری بستی کی مسجد بھی دریا برد ہوچکی ہے اور درجنوں مکانات دریا کا حصہ بن چکے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈی سی لیہ کے ترجمان نثار احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’دریائے سندھ کے اطراف کٹاؤ سے متاثرہ زمینوں اور بستیوں کو بچانے کے لیے اقدامات کی ہدایت کر دی گئی ہے۔ اس حوالے سے موقعے پر جا کر جائزہ بھی لیا گیا ہے۔

’اس کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ لوگ دریا میں پانی کم ہونے پر گھر تعمیر کر لیتے ہیں۔ فصلیں اگانے اور دریا کے بیڈ تک آبادی بڑھانے سے نقصان ہوتا ہے۔ لوگوں کو آگاہی بھی دی جاتی ہے کہ دریا کے اندر رہائشیں نہ بنائیں اور نہ فصلیں اگائیں۔‘

کٹاو کی وجوہات اور حفاظتی اقدامات

محکمہ انہار کے مقامی ایس ڈی او زبیر احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’دریائے سندھ ایک بڑا دریا ہے جس میں بالائی علاقوں میں بارشوں اور برف پگھلنے سے پانی کا پریشر بڑھتا رہتا ہے۔ اگر پانی زیادہ ہوجائے تو سیلاب کا سبب بھی بنتا ہے۔ اس لیے اس دریا کے کناروں پر بند مضبوط کرنے کا کام مسلسل ہوتا رہتا ہے۔

’مگر جہاں دریا میں موڑ آتا ہے وہاں پانی کناروں سے شدید پریشر میں ٹکراتا ہے تو کٹاؤ پیدا ہوتا ہے جس سے یہاں موجود کچے مکانات اور فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ اس حوالے سے کوئی مستقل بندو بست نہیں ہوسکا کیونکہ پانی کو روکنے کے لیے مضبوط بند باندھنے کی ضرورت ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے اس کے لیے پی سی ون بنا کر حکومت کو بھجوا رکھا ہے دیکھیں اس پر کب کام شروع ہوتا ہے۔ البتہ ہم حفاظتی اقدامات کے تحت جہاں کٹاؤ ہوتا ہے وہاں فوری طور پر عارضی سپر مٹی سے بنا دیتے ہیں۔ جو کچھ عرصے تک ہی پانی کو روک سکتا ہے۔‘

ترجمان پی ڈی ایم اے چوہدری مظہر حسین نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’زیادہ تر گرمیوں کے دنوں میں دریائے سندھ اور چناب میں کئی مقامات پر جہاں دریا میں موڑ آنے کٹاؤ ہوتا ہے۔ ان دنوں جھنگ سے بھی اطلاعات موصول ہوئیں اور اب لیہ سے معلوم ہوا ہے کہ وہاں کٹاؤ جاری ہے۔ لہذا ہم نے متاثرہ علاقوں کی مقامی انتظامیہ کو خطوط لکھ دیے ہیں تاکہ وہ محکمہ انہار کے ساتھ مل کر فوری سپر بنائیں۔‘

ان کے بقول، ’دریاؤں میں کٹاؤ ویسے تو اکثر و بیشتر ہوتا رہتا ہے جس کے لیے بندوں کو مستقل مضبوط بنانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ صرف کٹاؤ ہی نہیں بلکہ پانی زیادہ آنے پر بند ٹوٹنے کا بھی تدارک کیا جاسکے۔ اس حوالے سے حکمت عملی تیار کی جارہی ہے امید ہے اس پر جلد کام شروع ہوجائے گا۔‘

دریائے سندھ جنوبی ایشیا کا سب سے لمبا دریا ہے۔ اس کی لمبائی کم و بیش 3200 کلومیٹر ہے۔ اس کا مجموعی نکاسی آب کا علاقہ ساڑھے چار لاکھ مربع میل یا 11 لاکھ 65 ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ اتنے بڑے دریا کے پشتے اور کنارے محفوظ بنانا بھی انتظامیہ کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان