ہیڈ آفس والوں کے مزے زیادہ ہیں یا فیلڈ میں کام کرنے والوں کے؟

سیلز فیلڈ کی نوکری انسان اپنی مجبوری سے لیتا ہے، چھوٹے شہروں میں دوسری کوئی نوکری اتنے پیسے نہیں دیتی، تب آن لائن کا بھی تصور نہیں تھا، باس کا فون لینڈ لائن پہ مقررہ وقت پر آتا تھا، اس کے بعد سارا دن بغیر کسی موبائلی پنچایت کے گھومنا ہوتا تھا۔

زندگی کا بڑا حصہ فارما سیلز فیلڈ میں گزرا، ادھر رہتے ہوئے لگتا تھا کہ ہیڈ آفس میں کام کرنے والوں کی عیاشی لگی ہوئی ہے۔

وقت پہ آؤ، وقت پہ جاؤ، کرسی میز پہ سارا دن بیٹھے رہو، جب دل کیا کھانا کھایا، جب دل کیا چائے پی، موڈ ہوا تو سگریٹ لگانے نکل گئے۔ کام دھام کوئی ہو گا نئیں ان کو، بہت زور پڑتا ہو گا تو ہمیں فون کر دیتے ہوں گے کہ فلاں چیز دیکھ لو، وہ والی رپورٹ بنا دو، وغیرہ وغیرہ۔ خود یہ لوگ میٹنگ میٹنگ کھیلنے کے علاوہ کیا کرتے ہوں گے؟

میرے پاس بیگ میں دو قمیصیں ہوا کرتی تھیں۔ فیلڈ کا بندہ چمکتا نہ ہو تو اس کی بات کون سنے گا؟ صبح کام شروع ہوتا، دیر گئے دوپہر کا وقفہ لے کر شام میں پھر سے دھندہ چالو ہو جاتا۔ گھر جانے کا وقت ملا تو جا کے شرٹ بدل لی ورنہ دوپہر کسی لائبریری میں کاٹ کے شام میں دوسری قمیص اور تازہ چہرہ بنا کے نکل جاتا۔

بلاشبہ محنت بہت زیادہ تھی لیکن سہ ماہی (کوارٹر) میٹنگ میں اس کا اعتراف کرنے کے بجائے مزید گرم آلو تھما دیے جاتے۔ ٹارگٹ بڑھ جاتا، اس نے بڑھنا ہی ہوتا تھا، کاروبار کا فلسفہ یہی ہے کہ جہاں رک گئے وہاں موت ہے، نیچے جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

سیلز فیلڈ کی نوکری مگر انسان اپنی مجبوری سے لیتا ہے، چھوٹے شہروں میں دوسری کوئی نوکری اتنے پیسے نہیں دیتی، ہمارے زمانے میں تو آن لائن کا بھی تصور نہیں تھا۔ باس کا فون لینڈ لائن پہ مقررہ وقت پر آتا تھا، اس کے بعد سارا دن بغیر کسی موبائلی پنچایت کے گھومنا ہوتا تھا اور زندہ رہنے کی جگاڑ کرنا ہوتی تھی۔ زندہ رہنا بولے تو ۔۔۔ پروڈکٹ بیچنا، بکے گی تو پیسے بنیں گے، وہ ہوں گے تو زندگی چلے گی۔

اب ایسے رہین ستم ہائے روزگار کو ہیڈ آفس میں رہنے والے عیاش مکڑے نہیں لگیں گے تو اور کیا ہو گا؟ مجھے لگتا تھا کہ سیلز کا سارا بوجھ میرے نازک کندھوں پہ ہے، یہ لوگ کرتے ہی کیا ہیں؟ ہر چوتھے دن فیکس آتا ہے کہ ریٹ بڑھ گئے، یا فلاں باس نے ڈھمکاں فیصلہ کر لیا، باقی ان کی گیم ہے ہی کیا؟

اتنا سب کچھ کرنے اور ٹارگٹ وغیرہ سب اٹھا لینے کے بعد باس کو یقین بھی دلانا ہوتا تھا کہ اگر اپنے شہر سے باہر ہیں تو بھیا واقعی میں باہر ہیں۔ جہاں بھی ہوتا دس بجے رات کے آس پاس ریلوے سٹیشن کے باہر پی سی او سے فون کرتا، باس کو اس شہر میں اپنی موجودگی کا ثبوت پیش کرتا اور اس کے بعد جو بھی ڈاؤن ایکسپریس ملتی، پانچ چھ گھنٹے کا سفر کر کے اپنے شہر واپس آ جاتا۔ ہاں بھئی، نائٹ الاؤنس بچے گا تو اگلے دن تھوڑا بہتر فیلنگ ہو گی۔ موبائل والا رولا شروع ہوا تو ان مزوں کے رنگ بھی اڑنا شروع ہو گئے۔ وقت بے وقت گھنٹی بجتی اور بندہ لائن حاضر۔

سال گزرتے گئے اور مجھے سمجھ آتی گئی کہ کام کیسے ہوتا ہے۔ فیلڈ میں رہتے ہوئے دو ڈگریاں لیں، چھوٹے موٹے کام دھندے کیے، خاندان میں جب کہیں جہاں ضرورت پڑی، اسی وقت پہنچا، دو قمیصیں رکھنے کی بجائے باقاعدہ گھر کا وقفہ لینا شروع کیا، آن لائن لکھنا شروع کیا، ویب سائٹ بنائی، دس بارہ سال میں زندگی ایک ٹریک پہ آ گئی۔ سخت لیکن طے راستہ، پر وہ احساس اپنی جگہ تھا کہ ہیڈ آفس والوں کی عیاشی ہوتی ہے۔

پھر قسمت مجھے ہیڈ آفس لے آئی اور یہاں ایک بہت بڑے سرپرائز کا سامنا تھا۔ یہاں لوگ سوچتے تھے کہ فیلڈ والوں کی عیاشی لگی ہوئی ہے، وہ لوگ سارا دن گھر پہ بستر توڑتے ہیں، اپنے الگ بزنس شروع کیے ہوئے ہیں، جو کام کرنے والا ہوتا ہے وہ نرا مزدور ہے اور جو ٹارگٹ پورے کرتا ہے وہ کچھ نہ کچھ غیر قانونی (کمپنی کے اصولوں کے مطابق) کر رہا ہے، اس نے تھوڑے پیسوں پہ آگے بندے رکھے ہوئے ہیں، ان سے کام کروا رہا ہے، خود کچھ اور کر رہا ہے۔

یہاں میں بھی میٹنگز کا حصہ تھا۔ پتہ چلا کہ یہ تو بہت بورنگ کام ہے۔ جو بولتا ہے وہ بھی غلط ہے جو چپ رہتا ہے وہ مہا غلط ہے۔ پھر معلوم ہوا کہ دفتر میں بیٹھ کے نوکری کرنے کا مطلب خالی چائے سگریٹ نہیں ہے، اس کا مطلب ہے باس کی ناک کے نیچے چوبیس گھنٹے موجود رہنا اور فیلڈ والوں کی رائی برابر غلطی کا پہاڑ جیسا وضاحتی جواب دینا۔ سارا دن جارحانہ ای میلوں کے پروفیشنل جواب دینا اور رات کو سوتے ہوئے اگلے دن کی جنگوں کا نقشہ بنانا۔ ٹارگٹ کا پریشر یہاں سیلز کی نسبت زیادہ جان لیوا تھا۔ اُدھر ہتھیار اپنے ہاتھ میں ہوتے تھے، یہاں پستول لوڈ کر کے فیلڈ والے کو تھمانا ہوتا تھا اور نشانہ پھر بھی غلط، چہ کنم، نمی دانم۔

کرسی پہ بیٹھے بیٹھے توند، ڈبل چن، خراب نظر، دکھتی کمر اور پتہ نہیں کیا کیا چیزیں ہونا شروع ہو گئی تھیں، گھر واپسی کا وقت ادھر بھی طے نہیں تھا۔

یہ کیا ہوا؟ کام تو یہاں بھی ہو رہا ہے، کام تو فیلڈ میں بھی کرنا پڑتا تھا، عیاشی پھر کون کر رہا تھا؟ کس کام میں کام نہیں کرنا پڑتا؟

تب مجھے سمجھ آئی کہ اصل مسئلہ بے اطمینانی ہے۔ میں جس جگہ بھی تھا، دوسروں کو آئیڈیلائز کرتا تھا، سمجھتا تھا کہ ان کے مزے لگے ہوئے ہیں حالانکہ جو لگے ہوئے تھے وہ مزے بالکل نہیں تھے۔

فیلڈ تھی یا ہیڈ آفس، ہر کام کے اپنے فائدے تھے لیکن نقصان بھی ساتھ تھے۔ نوکری میں بھی کر رہا تھا نوکری وہ بھی کر رہے تھے، بنیادی مسئلہ رگڑ کم کرنے کا تھا، کو ایگزسٹنس یعنی بقائے باہمی کا تھا، اور یہ بنیادی بات سمجھنا تھی کہ ’کام دونوں کرتے ہیں اور بینڈ دونوں کا بجا ہوتا ہے۔‘

ہاں ایک بات آج تک سمجھ نہیں آئی، کیے گئے کام کو دکھانا کیسے ہوتا ہے؟ اوپر والوں کو مصروف کیسے نظر آنا ہے؟ آپ کو یہ ہنر آتا ہے تو آپ دونوں جگہ کامیاب ہیں۔

ورنہ فیض صاحب والا حال ہو گا؛

ہم جیتے جی مصروف رہے
کچھ عشق کیا کچھ کام کیا
کام عشق کے آڑے آتا رہا
اور عشق سے کام الجھتا رہا
پھر آخر تنگ آ کر ہم نے
دونوں کو ادھورا چھوڑ دیا

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ