سندھ تہذیب کو دریافت ہوئے ایک صدی تو ہو چکی ہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ پاکستان اور انڈیا دونوں نے 2024 کو اس نسبت سے نہیں منایا۔
انڈیا جس کا نام ہی انڈس تہذیب سے مستعار لیا گیا تھا اسے بھی اپنی تاریخ سے غرض ہے نہ ہی پاکستان کو، جہاں سندھ تہذیب کے بڑے شہر مہر گڑھ، ہڑپہ اور موئن جو دڑو موجود ہیں۔
ماہرین آثارِ قدیمہ اسے عراق کی سومیری تہذیب کی جانشین اور مصر کی تہذیب کے ہم پلہ قرار دیتے ہیں۔
اس کی دریافت کا سہرا سر جان مارشل کے سر جاتا ہے جو 1902 سے 1928 کے درمیان آرکیالوجی سروے آف انڈیا کے ڈائریکٹر جنرل رہے۔
لیکن بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ ہڑپہ میں ہونے والی کھدائیوں سے تقریباً ایک سو سال پہلے 1826 میں چارلس میسن نے ہڑپہ کو دریافت کر لیا تھا، مگر انگریزوں کو یہاں کھدائیاں شروع کرنے میں پوری ایک صدی لگ گئی۔
ملتان ڈویژن کے ڈسٹرکٹ گزیٹیئر کے مطابق ہڑپہ کے مٹی کے ٹیلوں نے 1826 سے ہی ماہرین کی توجہ اپنی جانب کھینچ رکھی تھی۔ تاہم یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ کھنڈرات کتنے قدیم ہو سکتے ہیں۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک سپاہی چارلس میسن کو آثارِ قدیمہ سے خاصی دلچسپی تھی۔ اسی میسن نے افغانستان میں اینگلو افغان جنگوں کے دوران کئی اہم سٹوپے اور قدیم شہر دریافت کیے تھے۔
وہ یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ جہلم سے واپس جاتے ہوئے سکندر کن راستوں سے گزرا تھا۔
اسی کھوج میں اس نے 1826 میں ہڑپہ میں ایسے ٹیلوں کی نشاندہی کی جہاں وسیع رقبے پر اینٹیں بکھری پڑی تھیں جن سے اس بات کو تقویت ملتی تھی کہ یہاں کوئی قدیم شہر آباد رہا ہو گا جو اب قصہ پارینہ بن چکا۔
جنرل کننگھم جو دراصل برطانوی فوج کی انجینیئرنگ کور سے تعلق رکھتے تھے، انہیں ہندوستان بھر میں اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کی وجہ سے یہ بھنک پڑ چکی تھی کہ یہ خطہ اپنے اندر صدیوں اور ہزاروں سال کی قدامت سمیٹے ہوئے ہے۔
ان کی رپورٹوں کی روشنی میں تاج برطانیہ نے 1861 میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی بنیاد رکھی تو اس کا پہلا ڈائریکٹر جنرل بھی انہیں ہی بنایا گیا۔
جنرل کننگھم نے پہلی بار 1853 میں ہڑپہ کا دورہ اس وقت کیا جب لاہور- ملتان ریلوے لائن بن رہی تھی۔
ٹھیکے داروں کو ریلوے کی پٹری بچھانے کے لیے ہڑپہ کے کھنڈرات سے اتنی اینٹیں مل گئی تھیں جو ایک سو میل لمبی ریلوے لائن بچھانے کے لیے کافی تھیں۔ تب یہاں سے کئی بیش قیمت اشیا بھی نکلیں جنہیں برطانیہ اور یورپ کے امرا نے خرید کر اپنے گھروں کی زینت بنا لیا۔
یہی دراصل ہڑپہ کا وہ ورثہ تھا جسے مقامی ٹھیکے داروں اور مزدوروں نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جو چیز بیش قیمت لگی اسے بیچ دیا اور جو رہ گئی اسے ریلوے لائن کے نیچے بجری بنا کر ڈال دیا۔
جنرل کننگھم کو پشیمانی تو بہت ہوئی لیکن اگر وہ اس کا پرچار کرتے تو اس سے ہندوستانیوں کے دلوں میں انگریزوں کے خلاف نفرت ہی پیدا ہو سکتی تھی۔
جنرل کننگھم نے ہڑپہ سے ملنے والی مہروں کو اکٹھا کیا اور ان پر چند جملے لکھ کر سمجھا کہ یہی کافی ہے۔
یہ سوال اپنی جگہ پر موجود ہے کہ وہ تقریباً 30 سال ادارے کے سربراہ رہے لیکن ان کے دور میں ہڑپہ میں کھدائیاں کیوں شروع نہیں ہوئیں۔
بعد میں سر جان مارشل کے دور میں دیا رام ساہنی کو ہڑپہ میں کھدائیوں کا کام سونپا گیا جو اس وقت ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر کام کررہے تھے۔
1917 میں ہڑپہ میں کھدائیوں کے لیے زمینیں خریدی گئیں۔
ہڑپہ سے جو مہریں جنرل کننگھم نے برآمد کی تھیں وہ ہندوستان پر کام کرنے والے ماہرین آثار قدیمہ کے لیے پرسراریت لیے ہوئے تھیں۔
دیا رام ساہنی بھی ان مہروں میں دلچسپی رکھتے تھے۔ انہوں نے 1917 میں اس وقت ہڑپہ کے بچے کھچے ٹیلوں کا دورہ کیا تھا جب وہ آثار قدیمہ کے صوبائی سربراہ تھے اور انہوں نے مقامی زمین داروں سے جگہ خرید کر وہاں کھدائیوں کی تجویز دی تھی۔
انہوں نے سفارش کی کہ ہڑپہ کے کھنڈرات کو آثار قدیمہ کے ایکٹ کے تحت تحفط دیا جائے۔ جس کے بعد ہڑپہ میں کھدائیوں کا ایک پورا منصوبہ ان کی زیر نگرانی ترتیب دیا گیا۔
لیکن جب کھدائیوں کا آغاز ہوا تو دیا رام یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ شہر کی باقیات صرف ان ٹیلوں کے نیچے نہیں تھیں بلکہ یہ میلوں پر پھیلی ہوئی تھیں۔
ہڑپہ سے برآمد ہونے والے چھوٹے بٹنوں پر ایسی تحریریں کندہ تھیں جو آج سو سال گزرنے کے باوجود پڑھی نہیں جا سکیں۔
دیا رام ساہنی جنوری 1921 میں لکھتے ہیں کہ ہڑپہ کی کھدائیاں کرتے انہیں سات ہفتے ہو چکے ہیں۔ یہاں وہ ان ماہرین آثار قدیمہ کا حوالہ دیتے ہیں جنہوں نے1917 سے پہلے ہڑپہ کا دورہ کیا تھا۔
وہ لکھتے ہیں کہ یورپی ماہرین کے بقول ہڑپہ میں 20 بار معمولی کھدائیاں کی گئی ہیں، جس کا ذکر جنرل کننگھم نے سروے رپورٹس کے والیم پانچ میں تفصیل کے ساتھ کیا ہے۔
جنرل کننگھم لکھتے ہیں کہ یہ آثار دریائے راوی کے کناروں پر دور تک جاتے ہیں۔
تاہم انہوں نے ہڑپہ کو چینی سیاح ہین تسانگ کے سفرنامے سے جوڑا جس میں وہ ہندوستان کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وہ تو شہر میں دو ماہ رہا جہاں اس نے سمتھیا مذہب کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔
یہ ایک گنجان آباد شہر تھا جہاں چار سٹوپے اور 12 خانقاہیں تھیں جن میں ایک ہزار کے قریب بھکشو ہر وقت عبادت میں مشغول رہتے تھے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہاں 20 مندر بھی تھے۔ کننگھم کے مطابق پافاتو شہر ہی دراصل آج کا ہڑپہ ہے۔
کننگھم نے یہاں پر ایسی کئی وسیع عمارتوں کی نشاندہی کی جو مذہبی، سماجی یا کاروباری مقصد کے لیے اکھٹے ہونے کے لیے استعمال ہوتی ہوں گی۔
آثار قدیمہ کے ایک اور ماہر ہیرا نند شاستری نے 1909 میں بھی ہڑپہ کا دورہ کیا تھا۔
اس نے بتایا تھا کہ یہاں کھدائیاں سود مند نہیں ہوں گی ماسوا ئے نوگزہ کے مقبرے اور پولیس سٹیشن کے ساتھ والی جگہوں پر۔
بعد میں ایک اور آفسر ہارگریوز نے 1914 میں ہڑپہ کا دورہ کیا اور رپورٹ دی کی ٹیلوں والی تمام جگہ کو مقامی مالکان 4706 روپے میں بیچنے کو تیار ہیں۔
یہ زمین خرید کر یہاں کھدائیاں کی جائیں بعد میں جب دیا رام کی نگرانی میں کچھ زمین خرید کر کھدائی شروع کی گئی تو باقی جگہوں پر غیر قانونی کھدائیوں پر پابندی لگا کراسے آثار قدیمہ ایکٹ کے تحت تحفظ دے دیا گیا تاکہ لوگ اینٹوں کے حصول کے لیے انہیں نقصان نہ پہنچائیں۔
ہڑپہ کو دریافت کرنے والا دیا رام ساہنی کون تھا؟
رائے بہادر دیا رام ساہنی وہ ماہر آثار قدیمہ تھا جس نے سو سال پہلے ہڑپہ میں کھدائیوں کے عمل کی نگرانی کی تھی۔ یہی وہ پہلا ہندوستانی تھا جو 1931 میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کا ڈائیریکٹر جنرل بنا۔
دیا رام ساہنی 16 دسمبر، 1879 کو بھیرہ میں پیدا ہوئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے سنسکرت میں گریجویشن کی اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔ 1903 میں اورینٹل کالج سے ایم اے کیا اور آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا میں ملازمت اختیار کر لی۔
جہاں انہوں نے سر جان مارشل کی نگرانی میں پنجاب، راجستھان اور اتر پردیش میں کئی اہم کھدائیوں میں حصہ لیا۔
دیا رام ساہنی1917 میں واپس لاہور آ گئے جہاں متحدہ پنجاب میں انہیں محکمہ آثار قدیمہ کا صوبائی انچارج بنا دیا گیا۔
انہوں نے ہڑپہ میں 1920 سے لے کر 1931 تک تین مختلف ادوار میں کھدائیاں کیں۔
سون سکیسر میں امب کے مندر اور ڈیرہ اسماعیل خان میں کافر کوٹ کی کھدائیوں اور بحالی کا کام بھی ان کی نگرانی میں ہوا۔
اسی دور میں گندھارا میں بھی کھدائیاں جاری تھیں جہاں ہونے والی دریافتوں سے بھی وہ کسی نہ کسی طرح منسلک تھے۔
ہڑپہ میں ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں گورنر پنجاب نے انہیں 1920 میں راولپنڈی میں ہونے والے دربار میں رائے بہادر کا خطاب دیا گیا۔
1925 میں انہیں سر جان مارشل کے ساتھ ادارے کا ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل بنا دیا گیا جبکہ ہورلڈ ہارگریوز کے بعد وہ ادارے کے پہلے ہندوستانی سربراہ بنائے گئے۔
1935 میں ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں تاجِ برطانیہ کی جانب سے Companion of the Order of the Indian Empire کا ایوارڈ دیا گیا۔
1935 میں انہوں نے ریٹائرمنٹ لے لی اور سات مارچ، 1939 کو وہ 59 سال کی عمر میں روہتک ہریانہ میں انتقال کر گئے۔
ہڑپہ کے دو سال بعد موہنجو داڑو دریافت ہوا تو پوری دنیا کو پتہ چلا کہ دریائے سندھ کی بھی ایک تہذیب تھی جو میسوپوٹامیہ کی تہذیب کی قدامت کے ہم پلہ تھی جو آج کے پاکستان، انڈیا اور افغانستان کے وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی تھی۔
آج تو سندھ تہذیب اور میسو پوٹامیہ تہذیب کے درمیان تجارتی روابط بھی ثابت ہو چکے ہیں۔
دنیا بھر میں انسان کی ابتدائی تاریخ پر کام کرنے والے لوگ سندھ تہذیب سے صرف نظر نہیں کر سکتے مگر حیران کن بات ہے کہ پاکستان اور انڈیا دونوں ممالک اس خاصیت سے بے بہرہ ہیں کہ وہ ایک ایسی تہذیب کے وارث ہیں جو آج سے ہزاروں سال پہلے بھی ایک مکمل سماج کی شکل رکھتی تھی جنہوں نے اپنے شہروں کو آج کے جدید شہروں کی طرح منصوبہ بندی سے آباد کیا ہوا تھا۔
جہاں امن، محبت اور رواداری کے نغمے گونجتے تھے جو دنیا بھر کو اپنی جانب کھینچتے تھے۔