ملینیئلز سب سے زیادہ تنہائی کی شکار نسل کیسے بنے؟

سوشل میڈیا پر دوستوں کا حال جاننا اب عام بات ہے، لیکن ہم نے یہ جان لیا ہے کہ اس طرح کے رابطے ہماری حقیقی زندگی کے گہرے اور معنی خیز تعلقات کا نعم البدل نہیں ہو سکتے۔

12 جون 2024 کو کراچی کی ایک گلی میں نوجوان موبائل اشتہار کے سامنے فون کال اٹینڈ کر رہا ہے (رضوان تبسم/ اے ایف پی)

بہت سے لوگوں کی طرح، جب میں نے تنہائی کے بارے میں سوچا تو فوراً اپنے سکول کے دنوں کی یاد آ گئی، جب ہم عمر رسیدہ افراد کی دیکھ بھال کے مراکز جایا کرتے تھے تاکہ وہاں رہنے والوں کا دل بہلا سکیں۔ ان افراد کو سماجی میل جول کی شدید ضرورت ہوتی تھی، اور بچوں کا معصومانہ تجسس انہیں اچھا لگتا تھا، یا کم از کم ہمیں یہی بتایا گیا تھا۔

مجھے ایج یو کے کے وہ بلیک اینڈ وائٹ اشتہارات بھی یاد ہیں، جن میں بزرگوں کے افسردہ چہروں کی تصویریں ہوتی تھیں۔ ان بوڑھے لوگوں کو کسی کا ساتھ درکار ہوتا تھا، اور آپ کا ساتھ ان کے چہرے پر مسکراہٹ لا سکتا تھا۔

اب یہ عجیب محسوس ہوتا ہے کہ میں اپنے جیسے انتہائی جڑے ہوئے نوجوانوں کے درمیان ہوں، جو ایک ایسی تقریب میں اکٹھے ہو رہے ہیں جس کا اہتمام میں نے تنہائی کے خلاف لڑنے کے لیے کیا ہے۔

یہ ان لوگوں کے لیے اور بھی حیران کن ہوسکتا ہے جو مجھے ایک سماجی شخصیت سمجھتے ہیں، جس کے پاس ایک بڑا پلیٹ فارم اور ہزاروں فالوورز ہیں۔ میں کبھی کبھار خود کو تنہا محسوس کرنے کا اعتراف کر رہی ہوں۔

اس سال کے آغاز میں، میں نے ’سٹرینجرز ان دا سٹی‘ کا آغاز کیا کیونکہ تحقیق کے مطابق میری عمر کے افراد اب معاشرے کے سب سے زیادہ تنہا افراد ہیں۔ یہ شاید کچھ لوگوں کے لیے حیرت انگیز ہو لیکن ہمارے کلچر کو دیکھتے ہوئے یہ حقیقت تلخ ہے۔

بہت سے لوگ تنہائی کی اس اچانک لہر کو وبائی مرض سے جوڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس نے ہمیں اور معاشرت کو کیسے بدل دیا۔ تاہم، اس کے آثار کووڈ سے بھی پہلے موجود تھے۔

2014 میں برطانیہ کو یورپ کا ’تنہائی کا دارالحکومت‘ قرار دیا گیا، اور اب 2024 میں، لاک ڈاؤن کے بعد، لوگ اور بھی زیادہ تنہائی محسوس کر رہے ہیں۔

اس سال، دا بیلونگنگ فورم کے ایک سروے میں 10 ہزار افراد سے سوالات کیے گئے۔ سروے میں ہر 10 میں سے ایک شخص نے کہا کہ اس کا کوئی قریبی دوست نہیں۔ تنہائی جدید دور کی ایسی لعنت ہے جو ہر عمر کے لوگوں کو متاثر کر رہی ہے۔

میں اپنی تنہائی کے احساس کی وجوہات دیکھ سکتی ہوں۔ ایک فری لانسر ہونے کے ناطے میرے کام کا شیڈول بے قاعدہ ہے، میرے دوست دنیا بھر میں بکھرے ہوئے ہیں اور میں اکیلی رہتی ہوں۔

’آپ کیا کر رہے ہیں؟‘ پوچھ کر اسی دن ملاقات کا منصوبہ بنانے کے دن گزر چکے ہیں۔ مجھے اپنے دوستوں سے محبت ہے لیکن ان کی اپنی مصروف زندگی ہے، اور آج کل، سماجی بننے کا مطلب ہے پہلے سے منصوبہ بندی کرنا، رابطے میں رہنا، اور ملاقات کے لیے وقت نکالنا، جو کہ شاید کئی ہفتے بعد کا ہو۔

سوشل میڈیا پر دوستوں کا حال جاننا اب عام بات ہے، لیکن ہم نے یہ جان لیا ہے کہ اس طرح کے رابطے ہماری حقیقی زندگی کے گہرے اور معنی خیز تعلقات کا نعم البدل نہیں ہو سکتے۔

جب میں ٹک ٹاک دیکھتی ہوں، تو اکثر مجھے 20 سے 25 سال کی اداس خواتین نظر آتی ہیں جو حقیقی دوستی اور تعلقات کے فقدان کا گلہ کرتی ہیں۔

یہ نوجوان خواتین کی ایک عام کہانی ہے۔ یعنی ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتی ہیں جو ہمیں بتاتا ہے کہ ہماری بالغ زندگی کیسی ہونی چاہیے۔ جب ہم ان توقعات کے خلاف جانے کا فیصلہ کرتے ہیں، مثلاً اکیلی رہنا، بچے نہ ہونا، اور خود مختار زندگی گزارنا، تو ہم اکثر اپنے تجربات پر شرمندگی محسوس کرتی ہیں۔ دوسروں کو اس طرز زندگی کو آن لائن رومانوی رنگ میں دیکھنا بھی مددگار ثابت نہیں ہوتا۔

بدقسمتی یہ ہے کہ آن لائن رہنے کی وجہ سے اپنی زندگی کا موازنہ دوسروں سے کرنا مشکل ہو جاتا ہے، حالانکہ ہمیں معلوم ہے کہ جو کچھ ہم دیکھتے ہیں وہ ان کی حقیقی زندگی کی عکاسی نہیں کرتا۔

خود کا دوسروں سے موازنہ کرنا ہماری خوشی چھین لیتا ہے، اور ہمیں جو عارضی خوشی لائکس، کمنٹس اور آن لائن تعلق سے ملتی ہے، وہ حقیقی زندگی کے تعلقات یا ان دوستوں کے ساتھ گہرائی میں کی جانے والی گفتگو کی گرم جوشی کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتی۔

اپنی تنہائی کے پیچیدہ احساسات سے نمٹتے ہوئے، میں نے محسوس کیا کہ لوگ واقعی تعلق قائم کرنا چاہتے ہیں لیکن اکثر پہلا قدم اٹھانے میں ہچکچاتے ہیں۔

ہم جو آن لائن ہوتے ہیں، وہ ہماری حقیقی شخصیت کا عکاس نہیں ہوتا۔ یہ زیادہ تر اداکاری کی مانند ہوتا ہے۔

جب ہمیں یہ احساس ہو کہ لوگ ہمیں اس لیے پسند نہیں کرتے کہ ہم کون ہیں بلکہ اس لیے کہ ہم کیا بننے کی کوشش کرتے ہیں، تو یہ گہری تنہائی کا سبب بن سکتا ہے۔

دیکھے جانے اور قبول کیے جانے کا احساس شاندار ہوتا ہے، لیکن میری نسل کے افراد اکثر اس موقع سے محروم رہتے ہیں کیونکہ ہم اپنے حقیقی پہلو کے سوا کچھ دکھانے سے ڈرتے ہیں۔

ہماری سماجی زندگیوں کو دوبارہ تعمیر کرنا آسان ہو سکتا تھا اگر بات چیت شروع کرنے یا پہلا قدم اٹھانے کا خوف ہمیں نہ روکتا۔ اس خوف کی جڑ شرمندگی میں ہے۔

میں نے بے شمار مرتبہ نئے دوست بنانے کی کوشش سے پیچھے ہٹ گئی ہوں کیونکہ مجھے مسترد ہونے کا ڈر تھا، جیسے لوگ میری تنہائی کو بھانپ لیں گے جسے میں چھپانے کی کوشش کر رہی ہوں۔

ایسے ہفتے بھی گزرے ہیں جب میرے کوئی منصوبے نہیں تھے، کیونکہ میں نے کسی سے رابطہ نہیں کیا۔

جب آپ اکیلے رہتے ہیں، تو دن گزر جاتے ہیں بغیر کسی سے بات کیے، اور آپ خود کو انسٹاگرام پر دوسروں کی زندگی دیکھتے ہوئے پاتے ہیں، اس صوفے پر بیٹھ کر جس پر سے آپ بمشکل اٹھتے ہیں۔

یہ احساس برقرار رہتا ہے اور حقیقت میں بدل جاتا ہے۔ امریکی ماہر نفسیات مارک ٹریورز اسے شرمندگی اور تنہائی کا چکر کہتے ہیں۔

’پہلے مرغی یا پہلے انڈہ‘ کی یہ صورت حال ہمیں برسوں تک الجھائے اور تنہا رکھ سکتی ہے۔ اگر آپ کو اپنے بارے میں بنیادی طور پر ناپسندیدگی کا احساس ہو اور مسترد ہونے کا گہرا خوف ہو، تو یہی شرمندگی کا احساس آپ کو تنہا رکھے گا۔

آپ دوستوں کے گروپ میں شامل ہوتے ہوئے بھی تنہائی محسوس کر سکتے ہیں، کیونکہ آپ کو سمجھا نہیں جاتا یا آپ کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ آپ کا ان میں کوئی مقام ہے۔

میں نے اکثر دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر محسوس کیا ہے کہ میں ایک مخصوص کردار ادا کر رہی ہوں، جبکہ دل کی گہرائیوں میں جانتی ہوں کہ یہ میں نہیں ہوں بلکہ وہ ہوں جس کے بارے میں میں سمجھتی ہوں کہ مجھے ان کے سامنے ہونا چاہیے۔

جب آپ اپنے حقیقی وجود سے جدا ہوں، وہ وجود جس کے ساتھ آپ کی غیر مشروط وابستگی ہوتی ہے، تو تنہائی بڑھ جاتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تنہائی کا شکار ہونا نہ صرف ذہنی بلکہ جسمانی صحت پر بھی اثر ڈالتا ہے۔ امریکی ڈاکٹر وویک مُرتھی کے مطابق، تنہائی اور سماجی علیحدگی ’قبل از وقت موت کے خطرے کو بالترتیب 26 فیصد اور 29 فیصد تک بڑھا دیتی ہیں‘۔

اس کے علاوہ، سماجی تعلقات کی کمی دل کی بیماری کے خطرے کو 29 فیصد اور فالج کے خطرے کو 32 فیصد تک بڑھا دیتی ہے۔

اپنی ذاتی پیچیدہ احساساتِ تنہائی سے نمٹتے ہوئے، مجھے احساس ہوا کہ لوگ شدت سے دوسروں سے جڑنا چاہتے ہیں لیکن ان میں پہل کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔

اسی لیے میں نے اس موقع کو غنیمت جانا اور ایک ایسا منصوبہ بنایا جو اس مسئلے کو حل کر سکے۔ میں نے ایسے پروگرام شروع کیے جہاں اجنبی لوگ آ سکیں، نئی دوستیاں اور روابط قائم کر سکیں۔

ہماری دوسری سیریز کے اختتام تک، تقریباً تین سو سے زیادہ لوگ شریک ہو چکے ہوں گے، اور فیڈبیک بہت مثبت رہا۔ لوگوں کو تھوڑی گھبراہٹ کے ساتھ آتے دیکھنا، اور پھر خوشی سے مسکراتے، قہقہے لگاتے ہوئے اور نئے دوستوں کے ساتھ رخصت ہوتے دیکھنا میرے لیے بے حد خوشی کا باعث بنا۔

یہ میرے لیے بھی مفید ثابت ہوا ہے۔ میں نے ایسے دوست بنائے ہیں جو زندگی بھر میرے ساتھ رہیں گے۔

کیا میں اب بھی تنہائی محسوس کرتی ہوں؟ بالکل! میں جانتی ہوں کہ یہ تقاریب تنہائی کے مسئلے کا مکمل حل نہیں، لیکن مجھے امید ہے کہ یہ ہماری احساسات کے بارے میں بات چیت کو کھولنے میں مددگار ثابت ہوں گی۔

اگر دو تنہا لوگ بھی آپس میں جڑ سکیں تو اس سے تبدیلی کی امید پیدا ہوسکتی ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل