حکومت نے 26 ویں آئینی ترمیم کا قانون تو پارلیمان سے منظور کروا کر سکھ کا سانس لیا ہے، لیکن بظاہر مولانا فضل الرحمٰن کے لیے یہ معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا۔
اپنے تازہ بیان میں انہوں نے حکومت پر اراکین کی خریداری کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اگر آئینی ترمیم کے لیے ان کی جماعت ووٹ نہ ڈالتی تو اصل مسودے سے بھی زیادہ خطرناک ڈرافٹ ایوان سے پاس کروا لیا جاتا۔
ڈی آئی خان میں منگل کو ایک اخباری کانفرنس کے دوران انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’جمعیت علمائے اسلام کے آٹھ ووٹ تھے لیکن آئینی ترمیم کے لیے حکومت نے 11 ووٹ خرید لیے تھے۔
’ہم نے اتفاق رائے کے لیے جو محنت کی، اس کی بدولت 56 کی جگہ 22 شقیں منظور ہوئیں، اس میں بھی پانچ شقیں ہماری تھیں۔‘
تاہم یہ کون سے 11 اراکین تھے اس کی وضاحت انہوں نے نہیں کی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک ماہ کی محنت کے بعد جے یو آئی نے اپنے اہداف حاصل کر لیے ہیں جبکہ حزب اختلاف کی بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے اپنے حالات کی وجہ سے ووٹ میں حصہ نہیں لیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جے یو آئی کے رہنما کامران مرتضیٰ نے گذشتہ روز ایک نجی نیوز چینل سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ترمیم کو اس لیے ووٹ دیا کیونکہ حکومت کے پاس ووٹ پورے ہوگئے تھے اور بہت سے لوگ حکومت کے ساتھ چلے گئے تھے۔
بل کی منظوری کے لیے حکومت کے اراکین پارلیمان پر دباؤ اور دھونس کی افواہیں تو گرم رہیں، لیکن یہ پہلی مرتبہ ہے کہ کسی نے خریداری کا الزام عائد کیا ہے۔
تاہم اس بارے میں حکومت کا ردعمل ابھی سامنے نہیں آیا۔
جے یو آئی کے سربراہ کی بظاہر اسٹیبلشمنٹ سے ناراضگی فروری کے عام انتخابات سے چلی آ رہی ہے اور وہ نئے انتخابات کا مطالبہ کرتے چلے آئے ہیں۔
عمران خان کی جانب سے 26 ویں ترمیم کے حامیوں کو غدار کہنے کے جواب میں کامران مرتضیٰ نے کہا تھا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے معاملے میں ہم آخر تک پی ٹی آئی کی فرمائشیں منواتے رہے۔