جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے بلوچستان سمیت ملک کی موجودہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بدھ کو کہا ہے کہ اگر حالات بہتر کرنے ہیں تو سیاست دانوں کو با اختیار بنا کر معاملات ان کے حوالے کر دینے چاہییں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے پارلیمنٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا: ’اگر ایوان بلوچستان کے حالات پر غور نہیں کرنے گا تو کون کرے گا۔
’ان معاملات کو سیاسی لوگ ہی حل کر سکتے ہیں، آج سیاسی لوگوں کی اہمیت ختم کی جا رہی ہے۔ تجربہ کار، سینیئر اور معاملہ فہم سیاسی رہنماؤں کو سائیڈ لائن کیا جا رہا ہے۔ ان کی جگہ ظاہر ہے نوجوان قیادت ہی لے گی جو تجربہ بھی نہیں رکھتے، معاملہ فہم بھی نہیں ہوتے، جذباتی بھی ہوتے ہیں، اس سے معاملات الجھ جاتے ہیں۔‘
مولانا فضل الرحمٰن نے ’سیاست دانوں کو با اختیار بنانے پر‘ زور دیتے ہوئے کہا کہ ’معاملات سیاست دانوں کے حوالے کریں۔ سب چیزیں اپنے اندر سمیٹنا اور سارے معاملات کے لیے فیصل آباد کا گھنٹہ گھر بن جانا، ہر چیز کے لیے امرت دھارا بن جانا، ایک خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن یہ کبھی بھی مسئلے کا حل نہیں ہو سکتا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’میں آج بھی سوچتا ہوں کہ کیا ہماری حکومت کے پاس اختیار ہے کہ وہ خود فیصلہ کر سکے یا اپوزیشن کو اعتماد میں لے کر پارلیمان خود اس کے لیے کوئی اقدام کرے، مذکرات کرے، بات چیت کرے اور ملک کے اندر اس اضطراب کو ختم کرے۔
’ہم پراکسی جنگ لڑ رہے ہیں، یہ ہمارے اپنے مفاد کی جنگ نہیں ہے بلکہ عالمی قوتیں داخل ہو رہی ہیں اور عالمی قوتیں اس صورت حال کا فائدہ اٹھا رہی ہیں۔‘
جے یو آئی رہنما نے کہا کہ ’پارلیمنٹ کو، سیاسی جماعتوں کو، سیاسی قائدین کو ملک کے لیے غیر ضروری سمجھنے سے بڑی حماقت دنیا میں کوئی اور نہیں ہو سکتی۔‘
انہوں نے کہا کہ یہ سنجیدہ صورت حال ہے، یہاں ریاست کو چیلنج کیا جا رہا ہے اور صورت حال مخدوش ہو گئی ہے۔
’میں اب بھی یقین رکھتا ہوں کہ اگر پارلیمنٹ سے درخواست کی جائے کہ وہ آگے بڑھے، بلوچستان اور کے پی میں جا کر بات چیت کرے لوگوں کے ساتھ، تو صورت حال کو دوبارہ اپنی حالت پر واپس لایا جا سکتا ہے۔‘
مولانا فضل نے کہا کہ ’لیکن اس انداز سے صورت حال مزید خراب ہوتی چلی جا رہی ہے۔ 2006 سے تجربہ رکھتا ہوں کہ جب ریاست ناکام ہو جاتی ہے تو وہاں ہم جاتے ہیں اور صورت حال کو کنڑول کرتے ہیں۔‘
انہوں نے خطاب میں کہا کہ ’اس وقت لاپتہ افراد کا انتہائی اہم مسئلہ ہے، لوگ 20، 20، سال سے لاپتہ ہیں، حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اہل خانہ کو بتائے کہ آپ کا بچہ کہاں ہے۔
’میں چاہتا ہوں کہ قوم فوج پر اعتماد کرے، لیکن ان اقدامات سے اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے۔ نفرتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔‘
صوبائی معاملات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ صوبوں کے وسائل وہاں کے عوام کے تحت ہیں، انہیں یقین دلا دیا جائے کہ 18 ترمیم کے تحت آپ کا حق ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ہم لوگوں کو روزگار نہیں دے پا رہے، مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے۔ ایک طرف بے روزگاری ہے دوسری طرف ہم محکموں کو ختم کر رہے ہیں۔ اس سے بے روزگاری مزید بڑھے گی، اس قسم کا قانون، بل یا ترمیم لانا ان ملازمین کے ساتھ اور ان کے بچوں کے ساتھ دشمنی ہوگی اور اس قسم کی ترامیم کو ایوان میں قبول نہٰں کیا جائے گا۔‘
ان کے بقول: ’یہی وجہ ہے کہ ہم مایوس ہوچکے ہیں، پارلیمنٹ اور ممبران کا کوئی کردار نہیں رہا۔ اس طرح نہیں چلے گا، معاملات کو خراب نہ کریں۔‘
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ یہاں سے پیغام جانا چاہیے کہ ہم چاہے فارم 45 کے ہیں یا 47 کے، ہم ایوان میں بیٹھے ہیں، انہی سے آپ کو کام لینا ہوگا، یہ سب اس لیے بیٹھے ہیں کہ جب ریاست ترمیم چاہے گی تو انہی سے کروا لے گی۔
’ہم اپنے مفاد کے لیے قانون بنانا چاہیں تو انہی کو استعمال کیا جائے گا، ہم اداروں کے استعمال کے لیے یہاں نہیں بیٹھے ہوئے، ہم آزادی سے ملک اور اور قوم کی خدمت کے لیے بیٹھے ہیں۔‘
بلوچستان میں حالیہ حملے
25 اور 26 اگست کی درمیانی رات صوبہ بلوچستان کے مختلف مقامات پر شدت پسندوں کے حملوں میں درجنوں شہری اور سکیورٹی فورسز کے اہلکار جان سے گئے تھے، جبکہ پاکستان فوج کی کارروائی میں 21 عسکریت پسند مارے گئے تھے۔
پاکستانی فوج نے ایک بیان میں بتایا تھا کہ موسیٰ خیل میں شدت پسندوں کے خلاف جوابی کارروائی کے دوران 14 سکیورٹی اہلکار جان سے گئے جبکہ 21 شدت پسندوں کو مار دیا گیا تھا۔
بلوچستان کے ضلع موسٰی خیل کے علاقے راڑہ شم کے مقام پر ٹرکوں اور مسافر بسوں سے اتارکر شناخت کے بعد 23 افراد کو فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا تھا۔
ان پر تشدد واقعات کے دوران 21 گاڑیوں کو نذر آتش بھی کیا گیا تھا جن میں ٹرک اور دیگر گاڑیاں شامل تھیں۔