پولیس کا کہنا ہے کہ پاکستانی سکیورٹی فورسز نے فوجی ہیلی کاپٹروں کی مدد سے بنوں میں بدھ کو افغانستان کی سرحد سے متصل صوبے میں باغیوں کے ایک پرانے گڑھ میں عسکریت پسندوں کے ایک ٹھکانے پر چھاپہ مارا، جس میں آٹھ مشتبہ افراد جان سے گئے۔
مقامی پولیس اہلکار زاہد اللہ نے بتایا کہ خیال کیا جارہا ہے کہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع بنوں میں آپریشن میں مارے جانے والے لوگوں میں ایک مقامی عسکریت پسند کمانڈر بھی شامل ہے۔
انہوں نے مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں اور یہ واضح نہیں تھا کہ سکیورٹی فورسز کا کوئی جانی نقصان ہوا ہے یا نہیں۔
پاکستانی سکیورٹی فورسز پاکستانی طالبان کے خلاف ایسی کارروائیاں کرتے ہیں، جنہیں تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی کہا جاتا ہے۔ وہ بظاہر افغان طالبان کے اتحادی ہیں لیکن ایک الگ گروپ ہیں۔
ٹی ٹی پی نے 2021 میں افغانستان میں طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے خطے میں اپنے حملوں میں اضافہ کر دیا ہے۔
سرکاری فورسز نے ٹی ٹی پی اور دیگر باغیوں کے خلاف بھی اپنی کارروائیاں تیز کر دی ہیں، جن میں شورش زدہ جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں قائم علیحدگی پسند گروپ بھی شامل ہیں۔
چھ ماہ میں 500 سے زیادہ کارروائیوں میں 474 اموات
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف کنفلکٹ اینڈ سیکیورٹی سٹڈیز (پی آئی سی ایس ایس) کے مطابق اگست 2021 کے بعد سے پاکستان کے اندر دہشت گردی کے حملوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔
ادارے کی رپورٹ کے مطابق رواں سال کے چھ ماہ میں تقریباً 500 کارروائیوں میں 474 اموات ہوئی ہیں اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
پاکستان کا موقف ہے کہ شدت پسندی کی لہر میں اضافے کی وجہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے افغانستان کی سرزمین کا استعمال ہے جسے روکنے میں افغان حکومت ناکام رہی ہے اور سرحد پار سے شدت پسند پاکستان کی سکیورٹی فورسز، چینی اور پاکستانی شہریوں کے خلاف حملے کرتے ہیں۔
پاکستانی حکام کے مطابق انہوں نے بارہا افغانستان کو ثبوت دیے مگر طالبان حکومت پاکستان کے تحفظات دور نہ کر سکی اور نتیجتاً یہ گروہ زیادہ آزادی سے افغانستان سے پاکستان کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔
جبکہ پاکستان میں افغان سفیر سردار احمد شکیب نے گذشتہ روز انڈپینڈنٹ اردو کو انٹرویو میں کہا تھا کہ ’اگر افغانستان یا پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عناصر ہیں تو اسے پاکستان اچھی طرح کنٹرول کر سکتا ہے۔ ہماری پالیسی ہے کہ ہم اپنی زمین کسی کے خلاف استمعال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘
افغان سفیر نے کہا تھا: ’ٹی ٹی پی کی حمایت کرنا افغان امارت اسلامیہ کی پالیسی نہیں ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان طویل بارڈر ہے، اگر افغانستان یا پاکستان میں ٹی ٹی پی کے عناصر موجود ہیں تو اسے پاکستان اچھی طرح کنٹرول کر سکتا ہے۔ لیکن ہمارا اس پر یقین ہے کہ افغانستان کا پاکستان میں عدم استحکام میں کوئی ہاتھ نہیں ہے بلکہ افغان حکومت یہاں استحکام لانے میں جو کردار کر سکتی ہے وہ ضرور کرے گی۔‘
ماضی میں پاکستان کی جانب سے افغانستان کے اندر کارروائی کی جا چکی ہے۔ رواں سال مارچ میں افغان طالبان نے کہا تھا کہ پاکستانی طیاروں نے افغانستان کی حدود میں پکتیکا اور خوست کے علاقوں میں بمباری کی جس کے بعد پاکستانی دفتر خارجہ نے بتایا کہ اس آپریشن میں حافظ گل بہادر گروپ سے تعلق رکھنے والے ’دہشت گرد‘ ہدف تھے۔