خیبر پختونخوا پولیس کے مطابق صوبے کے جنوبی شہر بنوں میں عسکریت پسندوں نے پیر کی صبح پولیس لائنز کی عمارت پر حملہ کیا اور فائرنگ کے تبادلے میں پانچوں حملہ آور مارے گئے، جب کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کے چار اہلکار بھی جان سے گئے۔
بنوں پولیس کے ضلعی پولیس افسر کے دفتر کے ایک اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بنوں پولیس لائنز آپریشن مکمل ہو گیا ہے اور پانچوں حملہ آور مارے گئے ہیں، جب کہ حملے کے نتیجے میں چار پولیس اہلکار بھی جان سے گئے۔
پولیس اہلکار نے حملہ آوروں کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ’وہ سازگار رکشے میں آئے تھے اور سی سی ٹی وی فوٹیج میں پولیس لائنز کے پارک روڈ کی جانب سے آتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔‘
بعض اطلاعات کے مطابق حملہ آور برقعے پہن کر آئے تھے تاہم پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ ’سی سی ٹی ٹی وی فوٹیج میں برقعے نظر نہیں آ رہے۔‘
بنوں پولیس لائنز ایک حساس مقام ہے، جہاں پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے دفاتر اور مکانات بھی واقع ہیں۔
پولیس لائنز کے ایک داخلی راستہ شہر کے ایک مرکزی روڈ پر واقع ہے، جو ایک بازار ہے اور وہاں پولیس اہلکار تعینات ہوتے ہیں۔
اس سے قبل بنوں پولیس کنٹرول روم کے ایک اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ پیر کی صبح پانچ عسکریت پسند پولیس لائنز میں داخل ہوئے، جن کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا۔
اہلکار کا کہنا تھا کہ عسکریت پسندوں کو روکنے کی کوششوں کے دوران بنوں پولیس کے اہلکار بھی جان سے گئے۔
بنوں پولیس کے اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پانچ شدت پسند پولیس لائن میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے، جن میں سے تین کو مار دیا گیا تھا اور باقی رہ جانے والے دو کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ اس وقت تک جاری تھا۔
بنوں پولیس لائنز پر رواں سال جولائی میں بھی عسکریت پسندوں نے حملہ کیا تھا، جس میں پاکستان فوج کے محکمہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق 10 شدت پسندوں کو مارا گیا تھا اور حملے میں آٹھ سکیورٹی اہلکار جان سے گئے تھے۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین خان گنڈاپور نے بنوں پولیس لائنز پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے اعلیٰ سرکاری حکام سے واقعے کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔
پشاور میں جاری ہونے والے ایک بیان میں انہوں نے بنوں پولیس لائنز پر حملے کو بزدلانہ فعل قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان بزدلانہ کارروائیوں سے پولیس کے حوصلے پست نہیں ہوں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
علی امین گنڈاپور نے کہا کہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پوری قوم پولیس اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے۔‘
نومبر 2022 میں ٹی ٹی پی کی جانب سے حکومت کے ساتھ جنگ بندی ختم کرنے کے بعد پاکستان نے گزشتہ سال خاص طور پر کے پی اور بلوچستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھا ہے۔
سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کی سالانہ سکیورٹی رپورٹ کے مطابق: پاکستان میں 2023 میں 789 دہشت گرد حملوں اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں تشدد سے متعلق 1524 اموات اور 1463 افراد زخمی ہوئے، جو گذشتہ چھ سال کے دوران بلند ترین سطح ہے۔
خیبر پختونخوا اور بلوچستان تشدد کے بنیادی مراکز کے طور پر ابھرے ہیں، جہاں مجموعی اموات کا 90 فیصد واقع ہوئیں اور 84 فیصد حملے ہوئے۔