سال ہے 2014 اور مہینہ ہے اگست کا۔ ادریس بابر دوستوں کے ساتھ مری کی سیر کو نکلتے ہیں (میں ان دوستوں میں شامل نہیں)۔ بانی پی ٹی آئی نے تاریخی دھرنے کا آغاز کر دیا ہے، اس لیے فیض آباد سے گاڑی بدلنا پڑتی ہے۔
مری سے کچھ دن بعد واپسی پر اسلام آباد میں فیضان ہاشمی کے فلیٹ پر ٹھکانہ کر لیا جاتا ہے۔ یہاں کچھ مختصر نظموں میں حالاتِ حاضرہ، عصری حسسیات، نفسیاتی مسائل، تشدد، مذہبی شدت پسندی، دہشت گردی، آمریت اور ناانصافی پر بحث طوالت پکڑتی ہے تو اسے نو، دس، گیارہ، بارہ سطروں تک کی نظموں میں روکنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس دوران انگریزی لمرک کی طرز پر پانچ سطری سیٹائر کی بھی کوشش کی جاتی ہے۔
اسی عرصے میں اسلام آباد کے دیگر شعرا اور ادبا دوستوں سے بھی ادریس بابر کی ملاقاتیں جاری ہیں۔ ان میں علی اکبر ناطق بھی ہیں۔ ستمبر کے اختتام تک محرم شروع ہو چکا ہے۔ یہ محرم کا پہلا عشرہ ہے۔ علی اکبر ناطق نے بہت بعد میں ایک گفتگو میں بتایا کہ ان کی موجودگی میں دس سطور پر معاملہ طے ہوتا ہے اور عاشورہ کے آس پاس عشرے کا نام عشرہ اور سطریں دس طے پا جاتی ہیں اور یوں ایک نئی نظم کا آغاز ہوتا ہے، جو انسانی جدوجہد کی علامت ہے۔
اس تمام پس منظر کو بتانے کا مقصد اس سوال کا جواب ہے کہ عشرہ کیا اور کیوں ہے۔ ’کیا‘ تک تو بہت سادہ بات ہے کہ دس سطروں کی نظم ہے، ’کیوں‘ کا جواب اتنا سادہ نہیں۔ پوچھنے والے پوچھتے ہیں کہ دس سطریں ہی کیوں؟ کہ نظم تو تین سطروں میں بھی مکمل ہو جاتی ہے؟ تو پہلا جواب تو یہ کہ بھیا یوں تو ایک مصرعہ بھی پوری نظم ہو سکتا ہے، ایک لفظ بھی، ایک سسکی بھی اور یہاں تک کہ سامنے بیٹھے شخص کی خاموشی بھی، تو دس سطریں بس ایک علامت ہیں۔ اس جدوجہد کی، جو نظم کے فارمیٹ میں جاری ہے لیکن جسے ابھی تک مختصر ہونے یا پھیلنے کا جواز نہیں ملا۔۔۔ دس سطروں تک!
بات یہ نہیں ہے کہ اب سطروں کی لمبائی ناپی جائے، سکتے گنے جائیں اور ختمے ڈالے جائیں۔ بات بس یہ ہے کہ اس میں جدوجہد ہو۔ بھلے ایک سطر میں پن نکالی گئی ہو اور دوسری میں ہینڈ گرنیڈ پھینکا گیا ہو اور باقی آٹھ سطور میں آٹھ سیکنڈ گن لیے جائیں، بھلے دس سطور میں دس کی دس گولیاں داغ دی گئی ہوں۔ عشرہ گانوں کا ٹاپ ٹین چارٹ ہو سکتا ہے، جسے پانچ کے بعد ملی نغموں کے ٹاپ فائیو سے بدل دیا گیا ہو، یا پانچ ججوں کا ایک پینل بھی جو مل کر ایک پانچ سطری فیصلہ تحریر کریں۔ عشرے کا جواز ڈھونڈا جانا ضروری ہے اور مل جانا ہی دراصل عشرے کی کامیابی ہے۔
اس کھوج کے لیے کم سے کم پندرہ بیس سال پیچھے جانا پڑے گا، لیکن اس سے پہلے ہم ہزاروں سال پیچھے چلتے ہیں۔
لکھنے کے زمانے سے بھی پیچھے جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ نظم کا اپنا جواز بھی ہزاروں سال پہلے سروائیول کی جنگ اور جنگ میں بہادری سے تراشا گیا تھا۔ خون کو گرمانے والی شاعری نظم نہ ہوتی تو شاید انسانی نوع ہاتھیوں کو سدھا کر جنگ کے میدانوں تک نہ لا سکتی۔
پہلی زبانیں جو ناپید ہو چکیں، ان میں جدوجہد کی کتنی نظمیں دس سطور کی ہوں گی، جنہیں گا کر آگ کے الاؤ کے گرد ناچا جاتا ہو گا۔ دس کا ہندسہ اپنا امکان ہاتھ کی انگلیوں پر دیکھ لیتا ہے اور پہلے نظم گو نے شاید دس سطور پر ہی اکتفا کیا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ لکھنے کے عمل سے پہلے جو گانے کا عمل جاری ہوا تھا اس میں دس جملوں کو گا کر بچوں کو زہریلے پودوں، خطرناک پانیوں، جان لیوا خصلتوں کی تنبیہ دس سطری لوریوں میں کی جاتی رہی ہو۔
کون جانتا ہے کہ نظم کن شکلوں سے ہو کر ہم تک پہنچی ہے اور آگے اسے کتنی شکلوں میں ڈھل جانا ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ یہ مختلف شکلوں میں ہمارے ارتقا کے سفر کی ساتھی ہے اور آج عشرہ اپنی شکل پکڑ رہا ہے تو شاید آج سروائیول کی جنگ میں اسی کی ضرورت ہے۔
اب ذرا واپس پندرہ سال پیچھے آتے ہیں۔ سال 2008 ہے، میں موٹر بائیک پر صبح یو ای ٹی کی طرف جا رہا ہوں۔ خودکش دھماکوں کا زمانہ عروج پر ہے۔ ابھی کل ہی لاہور ہائی کورٹ کے دروازے پر دھماکہ ہوا ہے۔ فائر بریگیڈ اس دور میں آگ بجھانے سے زیادہ کرائم سین کی صفائی پر مامور ہے۔ سڑک صاف کی جا چکی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اچانک میری نظر برگد کے درخت پر پڑتی ہے جس کی اونچی شاخوں پر چیلیں اور کوے وہ انسانی چیتھڑے نوچ رہے ہیں جو دھماکے کے ساتھ برگد پر جا لٹکے اور فائر بریگیڈ صاف نہیں کر سکی (انہیں غالباً سر جھکا کر کام کرنے کا حکم دیا گیا تھا)۔ میں اس منظر پر نظم لکھنا چاہتا تھا جو نہیں لکھ پاتا۔ پھر میں غور کرتا ہوں کہ گلشنِ راوی سے مغل پورہ تک یونیورسٹی کے راستے میں کتنے ایسے مقامات ہیں جہاں خودکش دھماکے ہو چکے۔ چار مقامات میرے راستے میں ہیں جہاں انسان پھٹے اور انسانوں کو پھاڑ ڈالا گیا۔ میں نظم لکھنا چاہتا ہوں اور نہیں لکھ پاتا۔
لال مسجد پر گرتے گولوں، میریٹ ہوٹل کے باہر پڑے شگاف اور بگٹی کے بیٹھے ہوئے غار سے ہوتے ہوئے ہم وکلا تحریک کے کندھوں پر سوار آرمی پبلک سکول سانحے سے پہلے تک مدہوش چلتے آئے ہیں۔ ہم نے زلزلے سے شہر مٹتے دیکھے، سیلابوں سے بستیاں اجڑتی دیکھیں لیکن ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ اس تمام عرصے میں شاعری میں نظم نے انسانی نفسیات کا بوجھ اٹھانے سے معذرت کیے رکھی اور غزل نے سٹیج ڈراموں کی جگتوں کے منظوم اردو ترجمے کو ترجیح دیے رکھی۔
ہم سے بڑی بے حس قوم کہاں ملے گی، جس نے اس تکلیف کے دور کو ایسے ہنسی خوشی جھیل کر بھلا دیا، جیسے بات ہی کوئی نہ ہو۔ ہم بھوک کے مارے لوگ ہمیشہ پیٹ سے سوچتے رہے اور چینل مالکان کو دھماکے کا انتظار رہنے لگا، اس امید پر کہ لوگ ٹی وی کی بریکنگ نیوز پر جڑے رہیں اور ٹیلی کام والوں کو بھی پورے مہینے کی کمائی کسی ایک دھماکے سے جڑی دکھائی دینے لگی کہ لوگ اپنے پیاروں کو اتنے فون کریں کہ نیٹ ورک جام ہو جائے۔ ہمارے یہاں فلاحی تنظیمیں بھی آفات کے لیے پوری تیاری رکھنے لگیں کہ امداد کا منتظر رہنا ہی ان کا سروائیول تھا۔
میں مڑ کر دیکھوں تو کوئی ایک ناول، ایک ڈرامہ، ایک افسانہ، ایک نظم اس دور کی نمائندے کے طور پر سامنے نہیں آتی۔ سوائے اعتزاز احسن کی پیروڈی میں وکلا کی تحریک کی کچھ شاعری کے علاوہ کوئی احمد فرہاد بھی اس دور کو نہیں مل سکا۔ اس دور میں دائیں بازو، بائیں بازو حتیٰ کہ درمیانے عضو تک کی تنظیموں کو کوئی آفاقی ادب تخلیق کرنے کی توفیق نہیں ہو سکی۔
اگر کوئی بڑا نام سامنے آنا ممکن بھی تھا تو وہ یا تو پردیس سدھار گئے یا جلا وطن کر دیے گئے، البتہ پردیس میں جس گرج کی توقع ان کی آواز سے کی جا سکتی تھی وہ سنائی نہ دی کیونکہ شاید وہ جلاوطنی سے زیادہ امیگریشن کے خواہاں تھے۔ یہی ایک خلا تھا جسے پُر کرنے کے لیے اسی دیس کی مٹی سے نئی صنف کا پیدا ہونا ناگزیر تھا۔ ایسے میں نثر میں سو لفظی کہانی اور شاعری میں عشرے نے کمان سنبھالی۔
عشرے کی ایجاد ادریس بابر جیسے سوپر جینیئس سے ہی ممکن تھی جو گولڈ میڈلسٹ انجینیئر ہونے کے باوجود صرف شاعری کے شوق میں ناروے چھوڑ آیا اور جس نے ’یونہی‘ جیس غزل کی ٹرینڈ سیٹر کتاب شائع کی۔ اس پر یہ کہ انہیں اس عمل کے لیے بہت موافق حالات ملے۔ یعنی عشروں کا خلا جسے پُر کرنا ناگزیر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ عشرے نے جس طرح ہمارے ارد گرد کے المیے کو مرتب کیا ہے، وہ ہمارے شہروں اور موجودہ تہذیب کی جیتی جاگتی تاریخ ہے۔
خاکسار کو ان دس برسوں میں پاکستان کی جامعات کے شاعری کے مقابلہ جات میں منصف کے فرائض نبھانے کا موقع ملا۔ عشرہ اکثر ہی بطور کیٹیگری اصناف میں شامل تھا اور مجھے خصوصی طور پر عشرے کے جج کے طور پر بھی بلایا جاتا رہا۔ میں نے نئی نسل کے پاس اس میڈیم کو اختیار کرنے کے لیے بڑے واضح دلائل دیکھے ہیں اور عشرے کو ان دس برسوں میں بہت مستحکم ہوتے دیکھا ہے۔
2014 کے بعد ادبی مزاحمت کے حالات بدلتے نظر آتے ہیں۔ مشال خان اور ایلان کردی پر متعدد عشرے اور نظمیں لکھی گئیں بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ عشرے نے عوام کو کتھارسس کا موقع دینے کے ساتھ ساتھ نظم کے برسوں سے اونگھتے وجود کو بھی مکمل بیدار کر دیا۔ بے روزگاری، استحصال، ماحولیاتی آلودگی، کہاں کہاں عشرہ کام نہیں آیا۔
اندازہ کیجے اور تحقیق کیجیے کہ سموگ کے لیے لفظ دھندھواں بھی ادریس بابر کے عشرے سے جڑ پکڑتا ہے۔ عشرہ سروائیول کی جنگ ہے لیکن یہ داخلی اور خارجی، ہر دو محاذوں پر مؤثر ہے۔ کچھ عشرے ایسے بھی نظر سے گزرے ہیں، جو شاید خودکشی سے پہلے کی اس وصیت جیسے تھے، جسے لکھنے کے بعد خودکشی کا ارادہ ترک کر دیا جاتا ہے اور تحریر پھاڑ دی جاتی ہے۔ یہ وہ اوزار ہے جس سے پہاڑوں کے سینوں میں شگاف ڈال کر موتی نکالنے کے لیے انسانوں کے سینے کثرت سے مل جاتے ہیں۔
ادریس بابر کی کتاب ’عشرے‘ بھی پچھلے سال سامنے آ گئی جس کے مطالعے سے عشرے کا جواز، وجود، ہئیت اور خصائل پوری طرح واضح ہو جاتے ہیں۔ اس دوران میری اپنی کتاب ’گندم‘ میں عشروں کا ایک حصہ سامنے آیا ہے اور متعدد اہم شعرا نے اسے صنفِ سخن کے طور پر اپنا کر ان متروک و معتوب لفظوں، اردو فارسی انگریزی کے عام فہم سلینگز، جدید محاوروں اور نئے روزمرہ کو اپنایا ہے، جس کی متحمل باقی ماندہ اصناف شاید نہیں ہوسکتی تھیں۔ یہاں ان غلطیوں کو بھی جگہ مل جاتی ہے، جنہیں آپ ہمیشہ آزمانا چاہتے تھے اور آزما نہیں سکتے تھے۔ (مثال کے طور پر تہذیب حافی کا عشرہ جس کے نیچے لکھا ہے ’غلطیاں شعوری ہیں‘)
2024 کی یہ خزاں عشرے کا پہلا عشرہ مکمل کر چکی ہے۔ اس دوران عشروں نے بہت سے ایسے معاملات پر بولنا سکھایا ہے، جس پر بولنا ان دس سالوں سے پہلے ممکن ہی نہ تھا۔ آپ واضح فرق دیکھیں گے کہ مذہبی شدت پسندی، جبری گمشدگی، ماورائے عدالت قتل، عزت کے نام پر قتل، کرپشن، خودکشی، تنہائی، بے مقصد زندگی، بے ثباتی، کھوکھلے تعلقات، وبا، کمزور محبتوں اور ان بے شمار حساس معاملات پر انسانی اساسوں کی چیخ کی آواز عشرے میں سنائی دیتی ہے جن پر پہلے نظم کی زبان اگر کبھی کھلتی بھی تھی تو دبی دبی سسکی بھرتی تھی۔
مجھے نہیں معلوم کہ عشرے کا مستقبل کتنا روشن ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر معاشرہ اتنا اچھا ہو جاتا ہے کہ کسی آواز کے اٹھنے کی ضرورت نہیں رہتی تو بھلے عشرہ اپنی موت آپ مر جائے لیکن جیسے حالات میں ہم جی رہے ہیں، ان میں عشرہ ہم عصر حساس شعرا سے مزید توجہ کا متقاضی نظر آتا ہے اور عشرے پر یہ بلوغت اپنے آثار دکھا بھی رہی ہے۔