چیف کی اصل مشکل!

چیف جسٹس صاحب کے لیے سب سے بڑا چیلنج آئینی عدالت یا انتظامی معاملات نہیں بلکہ یہ ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے ٹرینڈز، گالم گلوچ بریگیڈ کے دباؤ سے کس قدر دور رہتے ہیں۔

جسٹس یحییٰ آفریدی (سپریم کورٹ ویب سائٹ)

حالات کا نوحہ لکھیں یا وقت کا ماتم کریں۔ سچ تو یہ ہے کہ حالات نہ کل بدلے تھے نہ آج تبدیلی آئی ہے۔ جمہوریت تو رہی نہیں، آمریت اور سماجی فسطائیت برسر پیکار ہیں۔ جمہوریت پسند اب مزید جمہوریت کے دعوے دار بھی نہیں رہے کہ محدود جمہوریت بھی کم یاب ہو چکی ہے۔ اب ہم دو انتہاؤں کے بیچ ہیں جہاں یا صرف آمریت ہے یا فسطائیت اور شخصی آزادیاں محدود سے محدود تر۔

منظم اور نئے انداز میں سوشل میڈیا کے ذریعے دباؤ بڑھایا جا رہا ہے تو کبھی ہراسانی کے واقعات فیصلہ سازوں کے اعصاب پر سوار ہیں۔ دباؤ کی نوعیت اور کیفیت بدل گئی ہے۔ ایسے میں کیسے ہوں گے نئے چیف جسٹس اور ان کو کیا چیلنجز کا سامنا ہو گا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔

چیف جسٹس یحییٰ آفریدی ایک محاذ کے بعد اس عہدے تک پہنچے ہیں جہاں اب کی ان کی قابلیت، غیر جانبداری اور اصول پسندی کی اصل آزمائش ہو گی۔ انتظامیہ میں عدلیہ کی عدم مداخلت ان کے لیے ایسا بڑا امتحان ہے جس پر ان کے سابق چیف جسٹس صاحبان کی اکثریت پوری نہ اتر پائی بہر حال جسٹس یحیی از خود نوٹس کے سخت ناقد رہے ہیں اور یہی ان کے چناؤ کا اہم نکتہ بھی بنا۔

ایسے میں نئے نویلے چیف جسٹس صاحب کی عہدہ سنبھالنے کے ساتویں روز جیل اصلاحات کی میٹنگ۔ انتظامی امور پر  کمیٹی کی تشکیل اور احد چیمہ اور خدیجہ شاہ کی شمولیت عدلیہ کی انتظامیہ میں مداخلت اور مقتدرہ کے ساتھ تعلقات کے تناظر میں اچھا شگون نہیں سمجھا جا رہا۔

ویسے بھی ہم دودھ کے جلے چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتے ہیں لہٰذا شاید حساسیت کے آخری مرحلے پر ہوں۔ خدا کرے کہ ہمارے شبہات غلط ہوں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سنا ہے کہ چیف جسٹس صاحب نہ تو سمارٹ فون رکھتے ہیں، نہ ہی ٹاک شوز دیکھتے ہیں، نہ انسٹاگرام فالو کرتے ہیں اور نہ ہی ٹوئٹر جیسی ’خرافات‘ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔  ہمارے کورٹ کے چند رپورٹر تو یہاں تک بتا رہے ہیں کہ ’صاحب‘ کے پاس 3310 جیسا پرانا موبائل ہے اور ان کا نمبر سوائے چند دوستوں کے کسی کے پاس نہیں۔ یاد رہے کہ منصور علی شاہ صاحب اور اطہر من اللہ ان کے دیرینہ دوستوں میں سے ہیں۔

اب جب چیف جسٹس صاحب سوشل میڈیا دیکھتے ہی نہیں تو انہیں کسی پر اعتبار کرنا ہو گا؟ وہ ’کسی‘ کون ہو گا، یہ بھی دلچسپ سوال ہے۔ سوشل میڈیا پر کون ان کے بارے کیا کہتا ہے اس کی بھی انہیں پروا نہیں اور تو اور حال ہی میں ان کی تصویر کشی کی کوشش میں ایک ایس پی بھی ٹرانسفر ہو چکے ہیں لہٰذا موبائل ہاتھ میں لیے ہر اینگل سے وڈیو بنانے والوں کا مستقبل بھی مخدوش ہو سکتا ہے۔

سنا ہے کہ چیف جسٹس صاحب نہ تو سمارٹ فون رکھتے ہیں، نہ ہی ٹاک شوز دیکھتے ہیں۔۔۔ ہمارے کورٹ کے چند رپورٹر تو یہاں تک بتا رہے ہیں کہ ’صاحب‘ کے پاس 3310 جیسا پرانا موبائل ہے۔

چیف جسٹس صاحب ایک متوازن شخصیت کے حامل انسان ہیں جن سے تحریک انصاف غیر معمولی توقعات جوڑے ہوئے ہے جبکہ حکومت بھی مطمئن دکھائی دیتی ہے کہ کم از کم جسٹس یحییٰ ایڈونچرز کے قائل نہیں۔

ایک حکومتی شخصیت نے دلچسپ تبصرہ کیا کہ جسٹس یحییٰ نے برے حالات میں متوازن فیصلے دیے ہیں لہٰذا ان سے برے کی توقع نہیں۔ ان حالات میں جسٹس یحییٰ کیا پالیسی اختیار کرتے ہیں کہ سب خوش رہیں یہ اہم ہو گا۔ فیصلے متوازن نہیں انصاف پر مبنی ہونا چاہییں، اسی کی اس وقت ضرورت ہے۔

پہلی مشکل تو یقیناً جوڈیشل کمیشن کی صورت سامنے ہے اور نئے ججز کی تعیناتی، آئینی بنچ کے سر براہ کا تقرر اہم ہو گا۔ یاد رہے کہ آئینی سربراہ بھی کم اختیارات کا حامل نہ ہو گا اور نئے ممکنہ  پروسیجر ایکٹ کی روشنی میں سینئر ترین جج بھی کمیٹی کا رکن ہو گا۔

چیف جسٹس صاحب کے لیے سب سے بڑا چیلنج نہ تو آئینی عدالت کے سربراہ کی تعیناتی ہے اور نہ ہی آنے والے دنوں میں جیل اصلاحات جیسے انتظامی معاملات میں دلچسپی بلکہ اصل مشکل یہ ہو گی کہ وہ سوشل میڈیا کے ٹرینڈز، گالم گلوچ بریگیڈ کے دباؤ سے کس قدر دور رہتے ہیں اور سپریم کورٹ کی عمارت میں دستیاب ’ذہن سازوں‘ کو کس طرح ہینڈل کرتے ہیں۔

لندن میں پیش آنے والے واقعات کا بہانہ قاضی فائز عیسیٰ صاحب تھے لیکن نشانہ وہ تمام جج ہیں جو آزاد فیصلوں پر یقین رکھتے ہیں۔ جس تواتر کے ساتھ سماجی سطح پر متشدد رویوں کی ترویج کے ذریعے دباؤ بڑھایا جا رہا ہے اس کا نتیجہ خدانخواستہ خانہ جنگی کی صورت نکل سکتا ہے۔

قاضی فائز عیسیٰ کو پیش آئے سلوک کے بعد باجوڑ میں پیش آئے واقعے نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ انتہا پسندی اور تشدد کو عوامی رجحان اور  فسطائیت کو مقبولیت کا روپ دے کر  امن و امان کی صورت حال کو منظم طریقے سے خراب کیا جا رہا ہے۔ 

باجوڑ میں کرکٹ میچ کے دوران 26ویں ترمیم کے حق میں ووٹ دینے والے رکن اسمبلی مبارک زیب کو جس طرح نشانہ بنایا گیا اور جو صورت حال کرکٹ میچ کے دوران پیدا ہوئی وہ اس بات کی دلیل ہے کہ اکسانا، گھیراؤ جلاؤ کو ہوا دینا کسی بھی انتشار کا سبب بن سکتا ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ کا معاملہ ہو جس میں ایک ٹرول بریگیڈ باقاعدہ متعین ہے یا پھر مبارک زیب پر حملہ یہ سب سوچے سمجھے طریقے سے ہو رہا ہے۔ ان جیسے واقعات خانہ جنگی کی صورت پیدا کر سکتے ہیں۔

ایک طرف عمران خان کے وکیل انتظار پنجوتھہ کا اغوا اور ڈرامائی بازیابی سفاکیت اور آمریت کی دلیل ہے تو دوسری جانب قاضی فائز عیسیٰ کے پیچھے لگے زومبیز فسطائیت کا نمونہ، ایسے میں نئے چیف جسٹس کیسے توازن رکھ پائیں گے یہ وقت ہی بتائے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر