جب تین مرتبہ آؤٹ آف ٹرن جج چیف جسٹس بنے

جسٹس یحییٰ آفریدی سینیارٹی میں تیسرے نمبر تھے لیکن انصاف کی سب سے بڑی کرسی پر بیٹھے لیکن وہ سینیارٹی کے اعتبار سے ایسا کرنے والے پہلے نہیں۔

پاکستان میں آؤٹ آف ٹرن سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بننے والے ججز، جسٹس عبدالحمید ڈوگر (دائیں)، جسٹس سجاد علی شاہ (درمیان) اور (بائیں) جسٹس یحییٰ آفریدی (اے ایف پی/ سپریم کورٹ)

پاکستان کے آئین میں حال ہی میں کی گئی 26 ویں آئینی ترمیم کے تحت طے طریقہ کار کے مطابق جج جسٹس یحییٰ آفریدی کی بطور چیف جسٹس آف پاکستان تعیناتی کا نوٹیفیکیشن جاری ہو چکا ہے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی سینیارٹی میں تیسرے نمبر پر تھے، جسٹس منصور علی شاہ سب سے سینیئر جبکہ جسٹس منیب اختر دوسرے نمبر پر سینیئر ترین جج تھے۔

نئی آئینی ترمیم سے قبل تو یہ پہلے ہی سے سب کو معلوم ہوتا تھا کہ انصاف کی سب سے بڑی کرسی پر آئندہ کون بیٹھے گا کیوں کہ عدالت عظمٰی کے چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد سینیئر ترین جج ہی آئندہ کے لیے چیف جسٹس ہوتا تھا۔

البتہ پہلی مرتبہ 1994 میں سب سے سینیئر ترین جج کی بجائے جسٹس سجاد علی شاہ کو اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی ایڈوائس پر چیف جسٹس تعینات کیا گیا تھا۔

1994 میں چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کی ریٹائرمنٹ پر جسٹس سعد سعود سپریم کورٹ میں سب سے سینیئر ترین جج تھے لیکن اس وقت سینیارٹی لسٹ میں سجاد علی شاہ تیسرے نمبر پر تھے لیکن انہیں چیف جسٹس مقرر کر دیا گیا۔

بےنظیر بھٹو کو اس وقت کے صدر پاکستان فاروق لغاری نے برطرف کر دیا تھا اور جب یہ معاملہ سپریم کورٹ کے پاس گیا تو چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے ان کی برطرفی کے صدارتی فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔

چیف جسٹس سجاد علی شاہ اپنے دور میں خاصے متنازع رہے۔

انہوں نے 1997 میں، اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے دور میں جب 13ویں آئینی ترمیم کے ذریعے صدر پاکستان سے وزیراعظم اور قومی اسمبلی کو برطرف کرنے کا اختیار ختم کیا تھا تو سجاد علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے ان کے اختیارات کو بحال کر دیا تھا۔

لیکن اسی روز جسٹس سعید الزمان صدیقی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے ایک اور بینچ نے وہ فیصلہ معطل کر دیا جس سے نہ صرف چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے وزیراعظم نواز شریف کی حکومت سے اختلافات کھل کر سامنے آئے بلکہ عدلیہ بھی منقسم ہو گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہی حالات میں منقسم عدلیہ کے بعض ججوں نے سجاد علی شاہ کو بطور چیف جسٹس ماننے سے انکار کیا اور سپریم کورٹ کی کوئٹہ میں رجسٹری نے ان کی تعیناتی پر سوالات اٹھائے اور پھر عدالت کے 10 رکنی بینچ نے ان کی بطور چیف جسٹس تعیناتی کا نوٹیفیکشن مسترد کر دیا تھا اور یوں ان کے دور کا اختتام ہوا۔

سپریم کورٹ میں خلاف معمول ایک اور چیف جسٹس اس وقت سامنے آئے جب تین نومبر 2007 کو اس وقت کے صدر سابق جنرل پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ کر کے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو معزول کر دیا تھا۔

جب ملک میں ایمرجنسی لگائی گئی تو اس وقت سپریم کورٹ کے سینیئر ترین ججوں میں عبدالحمید ڈوگر چوتھے نمبر پر تھے لیکن ایمرجنسی کے بعد دیگر سینیئر ججوں نے صدر کے عبوری حکم نامے (پی سی او) کے تحت حلف اٹھانے سے معذرت کی تھی مگر عبدالحمید ڈوگر نے پی سی او کے تحت حلف اٹھا لیا تھا اور انہیں چیف جسٹس بنا دیا گیا۔

ایمرجنسی کے خاتمے پر جب آئین بحال کیا گیا تو عبدالحمید ڈوگر سمیت پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں نے دوبارہ حلف بھی اٹھایا۔

چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے بطور پرویز مشرف کی طرف سے ملک میں لگائی گئی ایمرجنسی اور اس کے تحت اٹھائے گئے اقدامات کو نظریہ ضرورت تحت بھی جائز قرار دیا تھا۔

ان کے دور میں بھی عدلیہ منقسم رہی اور عدلیہ کی بحال کے لیے وکلا تنظیموں نے بھرپور مہم بھی چلائی اور پھر پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ عبدالحمید ڈوگر کی ریٹائرمنٹ پر معزول کیے گئے چیف جسٹس افتحار محمد چوہدری کو  9 مارچ 2009 کو بحال کر دیا گیا۔

اب جبکہ سینیارٹی لسٹ پر تیسرے نمبر پر موجود جسٹس یحییٰ آفریدی کو چیف جسٹس مقرر کیا گیا ہے اور وہ 26 اکتوبر سے یہ منصب سنبھالیں گے تو ان کے لیے ایک اہم چیلنج عدلیہ کو مزید منقسم ہونے سے بچانا بھی ہو گا۔

اگرچہ کئی وکلا رہنما اور تنظیموں کی طرف سے جسٹس یحییٰ آفریدی بطور چیف جسٹس تعیناتی پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے اور انہوں نے اس کے خلاف تحریک چلانے کا عندیہ بھی دیا ہے لیکن اگر عدالت عظمٰی کے موجودہ ججوں کی اکثریت کی انہیں حمایت حاصل ہو جاتی ہے تو ان کے لیے اپنی ذمہ داریاں نبھانا قدرے آسان ہو گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ