چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے الوداعی ریفرنس کی تقریب میں خطاب کے دوران نئے نامزد چیف جسٹس جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ ’قاضی فائز عیسی کے غصے کو للکارنا ایسا ہی ہے جیسے کسی ریچھ کو چھیڑ دیا گیا ہو اور پھر اس سے خدا ہی آپ کو بچا سکتا ہے۔ ورنہ ان کی شخصیت کا ایک پہلو نرمی و رحمدلی بھی ہے۔‘
جسٹس یحیی آفریدی کی اس تشبیہ پر جمعے کی صبح جہاں قاضی فائز عیسی مسکرائے وہیں عدالت کا کمرہ نمبر ایک قہقہوں سے گونج اٹھا۔ اہم مقدمات کی سماعت کے لیے مشہور کمرہ نمبر ایک کھچا کھچ بھرا تھا۔ بیٹھنے کی تو کیا کھڑے ہونے کی بھی جگہ نہیں تھی۔ رش کی وجہ سے پریس گیلری کو بھی کھولا گیا جہاں کچھ وکلا بیٹھے تھے جبکہ چیف جسٹس کے اہل خانہ کمرہ عدالت کی اگلی نشستوں پر براجمان تھے۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے جواباً ہنستے ہوئے کہا کہ ’جسٹس یحیی آفریدی نے مجھے ریچھ سے تشبیہ دی ہے۔ ان کا شکریہ کہ انہوں نے ایک ریچھ کے ساتھ گزارا کیا ہے۔‘ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی اپنے ساتھی ججوں کے ساتھ بینچ پر بیٹھے کافی مطمئن نظر آئے۔
الوداعی تقریب ایک ایسے وقت منعقد ہوئی جب ملک کی اعلی ترین عدالت تاریخ میں سب سے زیادہ منقسم دکھائی دی۔ سپریم کورٹ کے پانچ جج تقریب میں شریک نہیں تھے۔
سپریم کورٹ کے ججوں کی کرسیوں پر کل 16 جج براجمان تھے جن میں سے دو شریعت کورٹ جبکہ دو ایڈہاک ججوں سمیت باقی 14 سپریم کورٹ کے تھے۔ جبکہ سپریم 26ویں ترمیم سے قبل پرانے قانون کے تحت ممکنہ چیف جسٹس جسٹس منصور علی شاہ اور عالی ترین جج کے عہدے کے نمبر دو امیدوار جسٹس منیب اختر الوداعی ریفرنس میں نہیں آئے۔ اس کے علاوہ جسٹس شہزاد ملک، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عائشہ ملک نے بھی شرکت نہیں کی۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنی تقریر مختصر رکھی اور اپنی ذاتی کہانی زیادہ بیان کی کہ وہ کیسے کوئٹہ سے شاہراے دستور پہنچے۔ تاہم چند جملوں نے انہوں نے واضح کر دیا کہ وہ کاغذات میں فراہم کیے گئے شواہد کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں جن میں شاید غلط بھی ہوں گے۔ قاضی فائز عیسی نے اپنے خطاب میں جب شرکا کا شکریہ ادا کیا تو انہوں نے کہا کہ ’جو آج شریک ہیں اور نہیں آئے دونوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔‘
جسٹس منصور علی شاہ اچانک عمرے پر روانہ ہوگئے ہیں۔ البتہ انہوں ریفرنس میں شریک نہ ہونے کی وجہ بتاتے کے لیے ایک آخری خط لکھا اور کافی سخت زبان استعمال کی۔ انہوں نے مکتوب میں یاد دلایا کہ آئینی حدود سے مبینہ تجاوز پر انہوں نے جسٹس ثاقب نثار کے ریفرنس میں بھی شرکت نہیں کی تھی۔ بعض سخت الفاظ کے انتخاب پر کچھ سینیئر ججوں نے تقریب کے بعد غیر رسمی گفتگو میں کہا کہ ’ایسے الفاظ کا استعمال نہیں کیا جانا چاہیے تھا لیکن کیا کہہ سکتے ہیں۔‘ جبکہ کچھ ججوں نے کمنٹ کرنے سے انکار کیا تو جسٹس جمال مندوخیل نے ہنستے ہوئے کہا کہ ’آپ سوال کریں آپ کا حق ہے لیکن میرا جواب ہے ’نو کمنٹس‘۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اٹارنی جنرل، پاکستان بار، سپریم کورٹ بار کے نمائندوں نے بھی الوداعی ریفرنس سے خطاب کیا۔ ریفرنس کے دوران جسٹس یحیی آفریدی اور قاضی فائز عیسی کے مابین ہم آہنگی واضح تھی۔ ان دنوں کی باڈی لینگویج سے لگا کہ دونوں نئے انتظام سے خوش ہیں۔ مخالف رائے رکھنے والے کچھ ججز بھی ریفرنس میں شریک ہوئے جس سے تاثر ملا کہ آنے والے دنوں میں سپریم کورٹ میں ججوں کی تقسیم شاید کم ہو۔
ریفرنس کی تقریب سوا گھنٹہ جاری رہی۔ سابق وزیراعظم عمران خان کے کزن ماجد خان جو پاکستان کے قومی کرکٹر رہ چکے ہیں وہ بھی شریک ہوئے۔ وہ جسٹس قاضی فائز عیسی کے اہل خانہ کے ساتھ ہی گفتگو میں مصروف رہے۔ میڈیا نمائندوں سے غیر رسمی گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’قاضی فائز عیسی بہت کمال جج رہے ہیں اس لیے ان کے ریفرنس میں شرکت کو اعزاز سمجھتا ہوں۔‘
تقریب کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے بنیادی انسانی حقوق کی یادگار کا افتتاح کیا۔ یہ یادگار گذشتہ ایک سال سے سپریم کورٹ میں زیر تعمیر تھی جو اب آخری مراحل میں ہے۔ اس یادگار میں مختلف بلاکس لگائے گئے جہاں مختلف شعر اور عبارتیں درج ہیں جیسے کے وکیل کا حق، اجتماع کا حق، عوامی مقامات تک بلاتفریق رسائی، ملکیت کا حق، جینے کی آزادی، تجارت کی آزادی، اظہار کی آزادی، نقل و حرکت کی آزادی، ملازمتوں میں امتیازی سلوک کی ممانعت، اقرار جرم پر مجبور کرنے کی ممانعت اور غیر قانونی حراست کی ممانعت جیسی عبارتیں کندہ ہیں۔
افتتاح کے دوران کچھ یوٹیوبرز نے قاضی فائز عیسی سے ایک سیاسی جماعت سے متعلق بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر سوالات کیے اور اونچی آواز میں انہیں اشتعال دلانے کی کوشش کی گئی لیکن قاضی فائز عیسئ نے کسی سوال کا جواب نہیں دیا۔ تقریب کے بعد بھی چائے کے دوران وکلا قاضی فائز عیسی سے ملتے رہے۔ ان کے چہرے پر اطمینان تھا۔ کمرہ عدالت میں ماضی میں میڈیا اور یوٹیوبرز کے کردار پر وہ اکثر تنقید کیا کرتے تھے لیکن آج انہوں نے کسی صحافی کے سوالات پر جواب دیے اور نہ ہی غصے کا اظہار کیا۔
جسٹس فائز عیسی تمام تر تنقید کے باوجود خوش دکھائی دیئے۔ چہرے پر نہ کوئی تناؤ نہ کوئی ابہام، ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے وہ ریٹائرمنٹ کے لیے انتہائی بےچین ہیں۔ اپنے خطاب میں بھی انہوں نے اس کا مرملا اظہار یہ کہتے ہوئے کہا کہ ’میری آذادی میں چند گھنٹے باقی ہیں۔‘
ملازمت سے تو یقینا جسٹس فائز عیسی کو فراغت مل گئی ہے لیکن کیا تحریک انصاف اور بعض دیگر حلقوں کی جانب سے ان پر تنقید سے انہیں نجات اب ملے گی یا نہیں مشکل دکھائی دیتا ہے۔ یہ عناصر انہیں مستقبل میں بھی یقینا یاد رکھیں گے۔
نئی آئینی ترمیم کے بعد اس قسم کی جلد جلد منعقد ہونے والی الوداعی تقاریب اگلی بار تین سال بعد ہوگی۔ سپریم کورٹ کور کرنے والے صحافیوں کے لیے ایک ایونٹ کم ہوگیا ہے۔