پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع میرپور میں نافذ شدہ ’پیس فل اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر آرڈیننس‘ کے تحت پہلی ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے، جسے عوامی حلقوں کی جانب سے ’کالا قانون‘ اور بنیادی انسانی حقوق کی ’سنگین خلاف ورزی‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
پیس فل اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر آرڈیننس 2024 کے آرٹیکل 8 کے تحت تھانہ پولیس نیو سٹی میرپور میں کانسٹیبل تسنیم احمد معظم کی مدعیت میں درج کی گئی ایف آئی آر کے مطابق عوامی ایکشن کمیٹی کی ایک میٹنگ مقامی ہوٹل ’اپنا ہوٹل‘ میں وقوع پذیر ہوئی، جس میں پروفیسر نعمان اور غلام جیلانی سمیت 90 افراد شریک ہوئے۔ میٹنگ میں شریک افراد نے یہ حلف لیا کہ ’میرپور کے حقوق اور حکمرانوں کی عیاشیاں ختم کرنے کے لیے انہیں میرپور شہر بند کرنا پڑا تو کریں گے۔‘
ایف آئی آر کے مطابق اس میٹنگ کی کوئی پیشگی اطلاع نہیں دی گئی جبکہ پیس فل اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر آرڈیننس کے نفاذ کے بعد انتظامیہ سے اس طرح کی میٹنگ کی پیشگی اجازت طلب کرنا لازم ہے۔
سینٹرل بار مظفرآباد کے صدر ناصر مسعود مغل ایڈوکیٹ نے اس ایف آئی آر کو بنیادہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ناصر مسعود کا کہنا تھا: ’پیس فل اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر آرڈیننس بنیادی انسانی حقوق کی صریحاً خلاف ہے، اس آرڈیننس اور اس کے تحت درج کی جانے والی ایف آئی آرز ناقابل قبول ہیں۔ یہ آزادی رائے کے خلاف ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ ’آئندہ دو سے تین دنوں میں سپریم کورٹ بار، ہائی کورٹ بار، ڈسٹرکٹ کورٹ بار اور سینٹرل بار مشاورت کے بعد اس آرڈیننس کو عدالت میں چیلنج کرے گی۔‘
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے رکن شوکت نواز میر، جو گذشتہ احتجاج میں پیش پیش رہے تھے، نے اس آرڈیننس پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ہوٹل کے اندر ایک ایونٹ ہو رہا ہے، جس میں 90 سے 100 لوگ ہیں اور ایف آئی آر میں درج کیا گیا ہے کہ حکمرانوں کی عیاشیوں کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہے،کیا یہ جرم ہے؟‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پہلے اس ملک میں دہشت گردی کے خلاف ایف آئی آر درج کی جاتی تھی، اب اس کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کی جا رہی ہے کہ لوگ حکمرانوں کی عیاشیوں کے خلاف احتجاج کیوں کر رہے ہیں؟ یہ حکومت کی انتہائی نیچ حرکت ہے جو لوگوں کو اپنا حق مانگنے سے بھی محروم کر رہی ہے۔‘
شوکت نواز میر نے کہا: ’ہم ایسے کسی آرڈیننس کو نہیں مانتے اور ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ پورے کشمیر میں تمام عمارتوں اور گاڑیوں پر سیاہ جھنڈے لگائے جائیں گے اور بازوؤں اور سروں پر سیاہ پٹیاں باندھی جائیں گی، جب تک یہ قانون واپس نہیں لیا جاتا۔ ہم اس قانون کے خلاف عدالت بھی جائیں گے۔‘
راجہ امجد علی خان ایڈوکیٹ نے آرڈیننس کے تحت درج کی گئی ایف آئی آر کے بارے میں اپنا موقف دیتے ہوئے کہا: ’یہ آرڈیننس انتہائی غیر ذمہ دارانہ سوچ کی عکاسی ہے،آرڈیننس کے جس آرٹیکل کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی وہ آرٹیکل ایف آئی آر میں بیان شدہ صورت حال کے برعکس ہے، ہم اس آرڈیننس کو عدلیہ میں چیلنج کریں گے اور یہ کسی صورت ماننے کے قابل نہیں۔‘
سول سوسائٹی مظفرآباد کے صدر شاہد اعوان نے اس آرڈیننس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ کالا قانون ہے، اسے کسی بھی صورت نافذ نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔ اول تو اس کے نفاذ پر ہی اسے وکلا کی جانب سے چیلنج کرنا چاہیے تھا لیکن نہیں کیا گیا، تاہم اس ایف آئی آر کے بعد سول سوسائٹی بھی آرڈیننس کو چیلنج کرنے کے لیے بطور فریق عدالت جائے گی۔‘
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیراعظم چوہدری انوار الحق اور وزیر داخلہ کرنل ریٹائرڈ وقار نور نے ایک ہفتہ قبل مظفرآباد میں ایک پریس کانفرنس میں اس آرڈیننس کے نفاذ کا اعلان کیا تھا، جس پر مختلف عوامی حلقوں، سول سوسائٹی اور وکلا تنظیموں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔
وزیراعظم چوہدری انوار الحق نے اس آرڈیننس کے نفاذ کے حوالے سے اپنے بیان میں کہا تھا: ’جس کسی کو بھی پُر امن اجتماع کرنا ہے، قانون یہ نافذ ہوا ہے کہ درخواست دے،کوئی سڑک بند نہیں کر سکتا، کوئی چوک بند نہیں کر سکتا۔ بچے بچیاں سکول جا رہے ہیں، کوئی ان کا راستہ نہیں روک سکتا،کوئی بیمار سڑک پر اس لیے نہیں مرے گا کہ آگے احتجاجی دھرنا چل رہا ہے، قاعدے اور قانون کے اندر جو بھی احتجاج ریکارڈ کروانا چاہتا ہے، کرے۔‘
اس ایف آئی آر کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے پولیس کا موقف جاننے کے لیے سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) میرپور خاور علی شوکت سے رابطہ کیا لیکن انہوں نے کوئی بھی بات کرنے سے گریز کیا۔
پیس فل اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر آرڈیننس ہے کیا؟
پیس فل اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر آرڈیننس کے تحت کشمیر میں عوامی احتجاج کے نئے قوانین مرتب کیے گئے ہیں۔
۔ اس آرڈیننس کے تحت اب کشمیر میں کسی بھی قسم کا احتجاج کرنے سے سات دن قبل ضلعی مجسٹریٹ کو ایک تحریری درخواست دینی پڑے گی، جس میں احتجاج کے منتظمین کے شناختی کارڈز، فون نمبرز اور پتہ درج ہوگا۔
۔ کوئی بھی غیر رجسٹرڈ تنظیم یا گروہ کسی احتجاج کی درخواست دینے کا مجاز نہیں ہوگا۔
۔ مجسٹریٹ کسی بھی مخصوص جگہ یا علاقے کو ریڈ زون ڈکلیئر کرتے ہوئے اس جگہ پر احتجاج کی اجازت نہ دینے کا اختیار رکھتا ہے۔
۔ کسی بھی عوامی احتجاج میں ڈنڈے، اسلحہ یا کسی بھی قسم کے ہتھیار لانے کی اجازت نہیں ہوگی۔
۔ سڑک یا چوک چوراہوں کو بند نہیں کیا جاسکے گا۔
۔ ان تمام شرائط یا کسی بھی ایک شرط کی خلاف ورزی پر فوجداری مقدمات کے تحت سات سال قید اور نظر بندی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔