چیف جسٹس کی تقرری، آئینی بینچوں کا قیام، سود کا خاتمہ: آئینی ترمیم میں مزید کیا؟

پارلیمان کے سامنے رکھی گئی 26 ویں ترمیمی بل کے ذریعے پاکستان کے 1973 کے آئین میں مجموعی طور پر 22 شقوں میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔

تین مارچ 2024 کی اس تصویر میں اسلام آباد میں قومی اسمبلی کے باہر موجود میڈیا ورکرز اور سرکاری اہلکار اجلاس سے قبل موجود ہیں (اے ایف پی)

پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ نے اتوار کو 26 ویں آئینی ترمیمی بل کے تحت 1973 کے آئین کی 22 شقوں میں ترامیم کی منظوری دے دی ہے، جس کے بعد اسے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں پیش کیا جانا ہے۔

اس سے قبل وفاقی کابینہ نے اتوار کو ہی 26 ویں آئینی ترمیمی بل کے مسودے کی منظوری دی تھی۔

یہ مسودہ گذشتہ تقریباً دو ماہ سے پاکستان میں زیر بحث تھا تاہم کم ہی لوگوں کو معلوم تھا کہ اس کے تحت وفاقی حکومت، آئین پاکستان کی کون کون سی شقوں میں تبدیلی کا ارادہ رکھتی ہے۔

سیاسی جماعتوں کے درمیان طویل مذاکرات، بحث و مباحثوں اور لفظی جنگوں کے بعد بالآخر حکومتی اتحاد جمعیت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمٰن کو بل کی حمایت پر رضا مند کرنے میں کامیاب ہو گیا۔

تاہم پارلیمان میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے اس کی حمایت سے انکار کر دیا۔

26 ویں ترامیم میں ہے کیا؟

وفاقی وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے کابینہ اجلاس کے بعد اور بعدازاں سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے 26 ویں آئینی ترمیم کی وضاحت کی، جس کی اہم شقیں درج ذیل ہیں۔

1۔ چیف جسٹس کی تقرری کا طریقہ کار، جس کا اختیار وزیراعظم کے بجائے پارلیمان کو تفویض کیا گیا ہے۔

2۔ آٹھ اراکین قومی اسمبلی (ایم این ایز) اور چار سینیٹرز پر مشتمل (12 رکنی) پارلیمانی کمیٹی چیف جسٹس کے عہدے کے لیے تین ججوں کے نام فائنل کر کے وزیر اعظم کو بھجوائے گی۔

3۔ چیف جسٹس ریٹائرمنٹ تک یا تین سال تک چیف جسٹس رہ سکیں گے۔

4۔ آئینی بینچوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کی سطح پر اور صوبوں میں میکنزم واضح کیا جائے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

5۔ صوبوں کی اسمبلیاں مجموعی اراکین کے 51 فیصد کے ساتھ قرادار منظور کریں تو متعلقہ صوبے میں آئینی بینچ قائم کیا جا سکے گا۔

 6۔ آئینی بینچوں کی تشکیل کا اختیار چیف جسٹس کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن کے پاس ہو گا۔

7۔ ججوں کی تعیناتی کے لیے جوڈیشل کمیشن چیف جسٹس سپریم کورٹ، سپریم کوٹ کے چار سینیئر ججوں، چار پارلیمنٹیرینز، وفاقی وزیر قانون اور اٹارنی جنرل آف پاکستان پر مشتمل ہو گا۔

8۔ صوبائی جوڈیشل کمیشن میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جائے گئی۔

9۔ جوڈیشل کمیشن کے ذمہ داریوں میں ججوں کی کارکردگی کی تشخیص بھی شامل ہو گی۔

10۔  جوڈیشل کمیشن کو اختیار ہو گا کہ وہ رولز بنا کر ایک طریقہ کار وضع کرے۔

11۔ جوڈیشل کمیشن چیف جسٹس اور صوبائی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے ساتھ مل کر ججوں کی کارکردگی کا جائزہ لے سکے گا۔

12۔ جوڈیشل کمیشن ججوإ کی پیشہ وارانہ استعداد کے بارے میں اپنی رپورٹ دے گا۔

13۔ ملکی معیشت سے ربا کے نظام کے خاتمے کی غرض سے بھی ایک تاریخ دی گئی ہے۔

سینیٹر اعظم نذیر تارڑ کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل، شریعت کورٹ، موسمیاتی تبدیلی اور ربا (سود) سے متعلق ترامیم بھی مسودے میں شامل ہیں۔ 

وفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ چھ مہینوں کے دوران 100 ترامیم پر مشتمل ترمیمی بل کے مسودے میں ٹرائل میں تاخیر، ایف آئی آر، ضمانت، اخراج اور ماہرین کی رپورٹس سمیت 150 سال سے رکی ہوئی چیزوں کو بہتر بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست