پاکستان میں گذشتہ کئی سالوں کی طرح رواں سال بھی شدید سموگ کے باعث تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے ہیں جس کے بعد صوبہ پنجاب میں تعلیمی سال کے دنوں میں کافی حد تک کمی دیکھنے کو آ رہی ہے۔
پنجاب میں ابتدائی طور پر لاہور، گجرانوالہ، فیصل آباد اور ملتان ڈویژن میں تعلیمی اداروں کو 17 نومبر تک بند کیا گیا تھا تاہم اب دیگر علاقوں کو بھی اس فہرست میں شامل کرتے ہوئے تعلیمی اداروں کو بند کرتے ہوئے آن لائن کلاسز کے ذریعے تدریسی عمل کو جاری رکھنے کا کہا گیا ہے۔
سموگ کے باعث تعلیمی اداروں کے علاوہ گھروں سے باہر غیر ضروری سرگرمیوں پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے جس کی بڑی وجہ فضائی آلودگی سے پھیلنے والی بیماریوں میں اضافہ ہے۔
دوسری جانب یونیسیف نے بھی اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ پنجاب میں پانچ سال سے کم عمر کے 11 ملین بچوں کو سموگ سے شدید خطرات لاحق ہیں۔
سموگ سے بگڑتی صورت حال اور تعلیمی اداروں کی بندش سے جہاں معمولات زندگی متاثر ہو رہے ہیں وہیں بچوں کی تعلیم پر بھی گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں جس کی بڑی وجہ تعلیمی سال کے دنوں میں بڑی حد تک کمی بھی ہے۔
اس حوالے سے آل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن کے صدر کاشف مرزا نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ عالمی معیار کے مطابق سال کے 365 دنوں میں سے تعلیمی سال 240 دن کا ہوتا ہے لیکن پنجاب میں اب یہ سال کم ہوتے ہوتے سو سے بھی کم دن کا رہ گیا ہے۔
کاشف مرزا کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ اکیڈمک سال کو دیکھیں تو اس میں نہ تو امتحانات کے دن شامل ہوتے ہیں نہ نتیجے کے لیکن اگر ان دنوں کو بھی شامل کر لیں تو 120 یا 125 دن کا تعلیمی سال بنتا ہے لیکن پاکستان میں گذشتہ چند سالوں سے یہ روایت بن چکی ہے کہ پہلے تو دو ماہ کی گرمی کی چھٹیوں کو بڑھاتے بڑھاتے تین سے ساڑھے تین ماہ کر دیں۔ ہفتہ، اتورا ہمارے ہاں اب ویسے ہی چھٹی ہوتی ہے۔ سردیوں کی چھٹیاں پہلے 25 سے 31 دسمبر تک چھٹی ہوتی تھیں، اب 15 جنوری تک کر دی گئی ہیں جبکہ گذشتہ برس یہ چھٹیاں سموگ کی وجہ سے 15 دسمبر کو شروع ہوئیں اور جنوری کے وسط میں جا کر ختم ہوئیں۔‘
’اس کے علاوہ عید جیسے تہواروں کی چھٹیاں اور پھر کبھی کبھار سکیورٹی، ڈینگی یا مختلف وباؤں کے نام پر چھٹیاں ملا کر ایک سال میں 15 سے 25 چھٹیوں کا اضافہ ہو چکا ہے۔‘
کاشف مرزا کہتے ہیں کہ سکول بند ہونے کے باوجود ائیر کوالٹی انڈکس ایک ہزار سے تجاوز کر چکا ہے اور یہی صورت حال رہی تو شاید سکول مزید بند رہیں گے۔
’بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ فی الحال صورت حال قابو سے باہر ہے اور چھٹیوں کا سلسلہ جنوری تک بڑھے گا جس کا مطلب ہے کہ تین ماہ کی گرمی کی چھٹیوں کے ساتھ ساتھ اب تین ماہ کی سردیوں کی چھٹیوں کا کلچر بھی متعارف کروا دیا گیا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اب بچوں کے پاس کتنا وقت رہ گیا جس میں ہم بچوں کو پڑھا سکیں گے؟ یہ وہی ہو گا جو کووڈ کے دنوں میں ہوا تھا کہ پہلے ہم نے مضامین کو محدود کیا، اس کے بعد ان مضامین کے سلیبس کو بہت حد تک محدود کیا گیا اور پھر جب امتحانات میں بچوں کی کارکردگی وہ نہیں تھی جو ہونی چاہیے تھی تو بچوں کو خیراتی نمبر دینے شروع کر دیے۔ میرے خیال میں یہ ایک تشویش ناک صورتحال ہے۔ ان حالات میں تعلیمی سال کے دن اب 100 سے بھی کم ہو گئے ہیں۔‘
کیا سموگ کی بگڑتی صورت حال میں تعلیمی ادارے مزید بند کیے جائیں گے؟
اس حوالے سے محکمہ تحفظ ماحولیات پنجاب نے پہلے چار سے نو نومبر اور پھر 17 نومبر تک پرائمری اور سیکنڈری سکولوں کو بند رکھنے کی تجویز حکومت کو دی اور حکومت نے تعلیمی ادارے بند کر دیے۔
اب محکمہ کے ترجمان ساجد بشیر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ’ہم صرف تجویز دے سکتے ہیں عمل پنجاب حکومت نے کرنا ہے۔ فی الحال ہم 17 نومبر تک انتظار کریں گے اور سموگ کی صورت حال دیکھیں گے، اگر ہم نے چھٹیوں کی کوئی تجویز دینی ہوئی تو 17 نومبر کو ہی جاری کریں گے جس پر حکومت عمل درآمد کرے گی۔‘
آن لائن کلاسسز کیا سب بچے لے رہے ہیں؟
صوبائی صدر پنجاب گورنمنٹ سکولز ایسوسی ایشن آف کمپیوٹر ٹیچرز اور پنجاب ٹیچرز یونین کاشف شہزاد چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ’پنجاب میں سرکاری سکولوں کی تعداد 42 ہزار ہے جن میں تقریباً سوا کروڑ بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان سکولوں میں 95 فیصد بچے آن لائن کلاسسز نہں لے سکتے کیونکہ ان کے اور ہمارے پاس سہولیات ہی نہیں ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے بیشتر بچوں کے والدین کی اتنی مالی سکت نہیں کہ وہ انہیں نئے جوتے خرید کر دے سکیں تو وہ انہیں آن لائن کلاسسز کے لیے اینڈرائڈ فون یا لیپ ٹاپ کہاں سے لے کر دیں گے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’وہ بچے جن کے گھروں میں والدین کے پاس واٹس ایپ وغیرہ کی سہولت ہے ہم انہیں اس پر کام وغیرہ بھیج دیتے ہیں اور اس طرح گزارا چل رہا ہے۔‘
آل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن کے صدر کاشف مرزا کے مطابق: ’آن لائن کلاسسز کی سہولت ہمارے امرا کے پاس ہے جو دو فیصد ہے، پھر انٹرنیٹ تو آپ سمجھیں کہ آن لائن کلاسسز تو ہیں ہی نہیں۔ ہم سرکاری سکولوں کی بات کرتے ہیں لیکن ہمارے تو 85 فیصد نجی سکول بھی لو کاسٹ سکولوں کے زمرے میں آتے ہیں۔‘
’ہمارے بیشتر اساتذہ کی ڈیجیٹل تعلیم کی کمی ہے۔ ہمارے ہاں انٹرنیٹ کی سہولت کا فقدان ہے، انفراسٹکچر نہیں ہے، سکول میں جو بچے پڑھ رہے ہیں ان میں سے کئی کے مالی حالات ایسے نہیں ہیں کہ ان کے پاس ہر بچے کے لیے لیپ ٹاپ، یا کوئی اور ڈیوائس میسر ہو، دوسرا بچوں کا عملاً کلاس روم والا ماحول بنتا ہی نہیں کیونکہ چھوٹے بچوں میں پڑھائی کی طرف سنجیدگی کم ہوتی ہے اس لیے اساتذہ اور بچے کا جسمانی طور پر آمنے سامنے ہونا بہت ضروری ہے۔‘
سرکاری سکولوں میں آن لائن کلاسسز کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کو درپیش مسائل پر انڈپینڈنٹ اردو نے وزیر برائے سکول ایجوکیشن پنجاب رانا سکندر سے بھی متعدد بار رابطے کی کوشش کی لیکن یہ خبر چھپنے تک ان سے بات ممکن نہ ہو سکی۔ ان کی جانب سے موقف موصول ہوتے ہی خبر میں شامل کر دیا جائے گا۔
آن لائن کلاسسز لینے والوں کو کن مسائل کا سامنا ہے؟
اس حوالے سے انڈپیڈنٹ اردو نے کچھ والدین سے بات کی تو معلوم ہوا کہ کچھ کو تو خاص مسائل نہیں لیکن زیاہ تر والدین اس وقت آن لائن کلاسزز کو مینج کرنے میں لگے ہیں۔
فائزہ احسن کے دو بچے ہیں جن میں سے ایک چہارم اور ایک پنجم جماعت میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’پہلے سکول والوں نے صبح آٹھ بج کر 45 منٹ سے آن لائن کلاس شروع کی جو دو بجے تک چلتیں تھیں۔ درمیان میں 20 منٹ کی بریک دیتے تھے۔ میرا سب سے بڑا اعتراض تو یہ تھا کہ بچے چھ گھنٹے سے زیادہ فون، ٹیبلٹ یا لیپ ٹاپ کے سامنے بیٹھ کر سکرین ٹائم لے رہے ہیں۔
’دوسرا میرا ایک بچہ لیپ ٹاپ پر آن لائن کلاس لیتا ہے تو دوسرے کو مجھے اپنا فون دینا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ ہر کلاس کے لیے ایک علیحدہ لنک ہے ہر کلاس کے بعد ایک نئے لنک سے دوسری کلاس میں جانا پڑتا ہے جس سے بچے تنگ آجاتے ہیں اور ان کی کلاس کے دوران مجھے ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں بھاگنا پڑتا ہے۔ کبھی ایک بیٹا آواز دیتا ہے کہ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا اور کبھی دوسرا۔ ایک عجیب افراتفری سی مچی ہوتی ہے ہمارے گھر میں۔‘
اسی طرح نورین فاطمہ کے خیال میں آن لائن کلاسسز وقت کا ضیاع ہے۔ ’بچے آن لائن کلاسسز میں کہاں دیہان دیتے ہیں۔ ان کے ارد گرد سے آپ سب کچھ اٹھا بھی لیں اور صرف کتابیں رکھ دیں تو وہ باقی بچوں کے ساتھ چیٹ باکس کھول لیتے ہیں اور اس میں ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کرتے ہیں۔‘
’میں خود بھی جاب کرتی ہوں اس لیے میرے لیے آن لائن کلاسسز مینج کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ مجھے یہ ذمہ داری کسی کو دے کر جانا پڑتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ میرے بچے مستقل آن لائن کلاسسز نہیں لے پا رہے کیونکہ میرا ایک بیٹا سوئم میں ہے اور بیٹی چہارم میں، انہیں آن لائن کلاس لینے میں میری مدد کی ضرورت پڑتی ہے لیکن میرا پنا آفس نو بجے شروع ہو جاتا ہے۔
’میں نے ایک دو دن تو چھٹی لی لیکن روز نہیں لے سکتی، اس لیے گھر میں موجود کسی بڑے کو کہنا پڑتا ہے لیکن وہ بھی روز تو مدد نہیں کر سکتے، انہیں اپنے کام بھی ہیں اس لیے پھر آفس سے واپس آکر مجھے بچوں کا کام دوسرے والدین سے لینا پڑتا ہے اور پھر بچوں کو کروانا پڑتا ہے جو کہ ایک الگ سے تھکا دینے والا عمل ہے۔‘
افشان اعجاز نامی والدہ کہتی ہیں کہ ’میرے تین بچے آن لائن کلاس لیتے ہیں اور میں اس دوران ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں بھاگتی ہوں۔ آن لائن کلاسسز میں میں نے یہ بھی نوٹس کیا ہے کہ اساتذہ بھی اضطراب کا شکار ہو رہے ہیں کیونکہ جس سکول میں میرے بچے جاتے ہیں وہاں اساتذہ کو سکول آ کر آن لائن کلاس لینی پڑتی ہے اس کے علاوہ انٹرنیٹ کا مسئلہ اپنی جگہ ہے بہت مرتبہ یوں ہوا کہ سکول کا انٹرنیٹ ہی بیٹھ گیا اور ہم ادھر کلاس کا انتظار کرتے رہے اور کبھی ہمارا انٹرنیٹ سست ہوتا ہے جس کی وجہ سے کلاس جوائن نہیں ہو پاتی تو ایک عجیب کرب میں مبتلا ہو جاتے ہیں ہم سب اور بچے اپنی جگہ تنگ ہوتے ہیں۔‘
تاہم ایک والدہ ایسی بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ انہیں ابتدا میں مشکل ہوئی لیکن اب سب ٹھیک ہے، سکول نے کلاسسز کا وقت بھی کم کر دیا ہے اور ان کے بچوں نے ایک کلاس سے دوسری کلاس میں کیسے جانا ہے وہ بھی سیکھ لیا ہے اس لیے انہیں اتنی مشکل پیش نہیں آ رہی۔
اس سب کا حل کیا ہے؟
گذشتہ روز محکمہ تحفظ ماحولیات نے ایک اور نوٹفیکیشن جاری کیا کہ اب 11 نومبر سے 17 نومبر تک پنجاب کے چار ڈویژنز لاہور، فیصل آناب، ملتان اور گجرانوالہ میں رات آٹھ بجے کے بعد مارکیٹیں بند کر دی جائیں گی، ریستوران، آؤٹ ڈور فیسٹیولز، کنسرٹس پر بھی پابندی ہو گی۔
دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ میں سموگ سے متعلق درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس شاہد کریم پنجاب حکومت کی کارکردگی پر ناخوش دکھائی دیے اور انہوں نے پنجاب حکومت سے سموگ کے خاتمے کے لیے کیے جانے والے تمام اقدامات کے حوالے سے رپورٹ بھی طلب کر لی ہے۔
کاشف مرزا کہتے ہیں کہ ’یہ پہلی مرتبہ کسی ملک کے ساتھ نہیں ہو رہا۔ ہمارے پاس پانچ کامیابی کی کہانیاں ہیں۔ لندن، پیرس، نیو یارک، ٹوکیو اور بیجنگ۔ ان پانچوں شہروں میں سموگ ایک بڑا مسئلہ تھا اور کئی اموات بھی ہوئیں لیکن انہوں نے پلان کر کے عمل درآمد کیا اور اس سے نجات پا لی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’گرین سکولز کا کانسیپٹ لائیں۔ سکولوں کو سولر انرجی کے ساتھ متعارف کروایا جائے نہ کہ وہاں بجلی، جنریٹر یا گیس سیلینڈرز کا استعمال ہو۔ سکولوں کے اندر را ایریا زیادہ ہونا چاہیے جس میں کہ سکولوں میں گراؤنڈز ہونے چاہییں لیکن اگر سکول میں گراؤنڈ نہیں تو سکول کے لانز کے اندر ہریالی اور پودے ہونے چاہییں تاکہ اس ایریا کے کاربن کو قابو میں کیا جائے۔
’اس کے علاوہ بچوں میں شعور پیدا کیا جائے کہ وہ کسی بھی قسم کی آلودگی چاہے وہ ماحولیاتی ہے یا صوتی اسے کم سے کم کریں۔ اگر ہم اس سب پر عمل کریں گے تو وقت کے ساتھ ساتھ اس کے اچھے نتائج بھی سامنے آئیں گے۔‘