پشاور میں سموگ نہیں دھند ہے: صوبائی محکمہ موسمیاتی تبدیلی

آئی کیو ایئر نامی ادارے کی اتوار کو جاری ہونے والی رینکنگ کے مطابق پشاور دنیا میں سب سے زیادہ فضائی آلودگی والا شہر قرار پایا۔ تاہم محکمہ موسمیاتی تبدیلی کے خیال میں پشاور میں ’سموگ نہیں بلکہ دھند‘ ہے۔

پشاور میں 11 نومبر 2024 کو شدید سموگ دیکھی گئی (اے ایف پی)

صوبہ پنجاب کا شہر لاہور گذشتہ کئی ہفتوں سے شدید سموگ کی لپیٹ میں ہے، جہاں کاروبار زندگی متاثر، تعلیمی ادارے بند اور گھروں سے باہر غیر ضروری سرگرمیوں پر پابندی عائد ہے، مگر اب صرف لاہور نہیں بلکہ پشاور بھی ’سموگ‘ سے متاثرہ شہروں کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔

آئی کیو ایئر نامی ادارے کی اتوار کو جاری ہونے والی رینکنگ کے مطابق پشاور دنیا میں سب سے زیادہ فضائی آلودگی والا شہر قرار پایا۔ تاہم محکمہ موسمیاتی تبدیلی کے خیال میں پشاور میں ’سموگ نہیں بلکہ دھند‘ ہے۔

پشاور کی رینکنگ اتوار 10 نومبر کے بعد 11 نومبر کو دو درجے کم ہو کر دنیا میں تیسرے نمبر پر آگئی تھی لیکن اب بھی یہ شہر ’سموگ‘ کی لپیٹ میں ہے اور حد نگاہ کم ہے، جب کہ ایم ون موٹر وے کو رشکئی انٹرچینج تک عموماً صبح کے اوقات میں بند رکھا جاتا ہے۔

چند سال پہلے جب لاہور میں سموگ کا مسئلہ شروع ہوا تو انڈیا میں فصل کی کٹائی کو اس کا ذمہ دار ٹھرایا گیا لیکن بعد میں ماہرین نے دیگر وجوہات بھی بتائیں۔

یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب کے مطابق سموگ دارصل دھواں اور فوگ (دھند) کا ملاپ ہے اور یہ اصطلاح 20 ویں صدی میں استعمال ہونا شروع ہوئی تھی۔ 

یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق سموگ صنعتی اور رہائشی آبادی سے پیدا ہونے والے سرگرمیوں کی وجہ سے بنتی ہے، جب بغیر پراسس کیے چیزوں کو فضا میں پھینک دیا جاتا ہے، جس شدید فضائی آلودگی پیدا ہوتی ہے۔

سموگ دراصل مختلف چیزوں کا مرکب ہے جس میں سلفر آکسائڈ، دھواں،نائٹروجن آکسائڈ،کاربن مانو آکسائڈ، پولن،گرد وغبار، ایمونیا گیس اور دیگر کیمکلز شامل ہیں۔

سموگ یا دھند؟

افسر خان محکمہ موسمیاتی تغیر خیبر پختونخوا کے ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ پشاور میں دھند پچھلے سال کے مقابلے میں اور اکتوبر سے اب تک بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے ایک ماہ پہلے شروع ہو گئی ہے لیکن پشاور میں اب جو نظر آرہا ہے یہ سموگ نہیں بلکہ دھند ہے۔

انہوں نے بتایا کہ سموگ کا تعلق موسمیاتی تبدیلی سے ہے اور یہ گذشتہ ایک دہائی سے ہم دیکھ رہے ہیں، جس میں سب سے زیادہ حصہ فضائی آلودگی کا ہے، جس کے ذمہ دار ہم شہری ہیں۔ 

افسر خان نے مزید بتایا کہ پشاور میں ہوا میں نمی کی شرح 90 فیصد سے کم ہے جس کی وجہ سے دھند پھیلی ہوئی ہے۔ ’لیکن حد نگاہ لاہور سمیت دیگر شہروں سے قدرے بہتر ہے اور اسی وجہ سے اس سے واضح ہوتا ہے کہ پشاور میں سموگ نہیں دھند ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ دھند میں حدنگاہ سموگ کے مقابلے میں قدرے بہتر ہوتی ہے اور اسی وجہ سے پشاور میں حد نگاہ دن کے وقت بہتر رہتی ہے اور صبح تقریباً 11 بجے تک مطلع صاف ہو جاتا ہے۔

افسر خان کے مطابق، ’اب ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ایک تو ریسٹورنٹس کھلے میں برننگ سے پرہیز کریں اور سڑکوں پر بھی ٹریفک کی صورتحال بہتر کرنے کی ضرورت ہے جب کہ پرانی گاڑیوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا۔

انہوں نے بتایا، ’فضائی آلودگی سموگ کی سب سے بڑی ذمہ دار ہے اور موسم سرما میں جب درجہ حرارت میں کمی آتی ہے تو گرم ہوا اوپر جانے کے بجائے فضا میں معلق ہوجاتی ہے۔‘

پشاور میں ’سموگ‘ کیسے؟

ڈاکٹر محمد رفیق پشاور کے انسٹیٹیوٹ آف ممیجمنٹ سائنسز (آئی ایم سائنسز) میں شعبہ ماحولیات کے پروفیسر ہیں اور ماحولیات پر مختلف مقالے بھی لکھ چکے ہیں۔ 

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 2021 میں پشاور کلین الائنس نامی ایک تنظیم کی رپورٹ کے مطابق پشاور میں فضائی آلودگی میں سب سے زیادہ حصہ (58 فیصد) ٹریفک کا ہے۔ 

پشاور کلین الائنس رضاکاروں کی ایک غیر سرکاری ایسوسی ایشن ہے، جو فضائی آلودگی پر کام کرتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تنظیم کی 2021 کی رپورٹ کے مطابق پشاور کی فضا میں چھوٹے چھوٹے ذرات کی شرح عالمی ادارہ صحت کے معیار سے 12 سے 16 گنا زیادہ ہیں۔

اسی رپورٹ کے مطابق فضائی آلودگی کی بڑی وجہ بے ہنگم ٹریفک اور 2012 سے 2020 تک پشاور میں گاڑیوں میں 85 فیصد اضافہ ہے، جب کہ سکوٹرں اور موٹرسائیکلوں کی تعداد میں 168 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

پروفیسر رفیق کے مطابق اس کے بعد چھ فیصد صنعتوں سے نکلنے والا دھواں، گرد، ویسٹ برننگ اور بائیو ماس یعنی رہائشی آبادیوں سے نکلنے والا دھواں بھی پشاور کی فضائی آلودگی میں حصہ ڈال رہے ہیں۔

ان کے خیال میں پشاور میں سموگ کے خاتمے کا حل ٹریفک کو کنٹرول کرنا ہے۔ 

انہوں نے بتایا، ’تمام پیٹرول سٹیشنز میں یورو فائیو پیٹرول اور 10 سے 15 سال پرانی گاڑیوں کا روڈ پر نکلنا کرنا کر دیا جائے اور ہر چھ ماہ بعد گاڑیوں کی فٹنس سرٹیفیکیٹ چیک کیا جائے۔ اس طرح 60 فیصد تک فضائی آلودگی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔’

پروفیسر رفیق سے جب پوچھا گیا کہ فضائی آلودگی تو گرمی میں بھی ہوتی ہے تو اس وقت سموگ کیوں نہیں بنتی تو ان کا تھا کہ ’سردی میں بھاری ہوا کے ساتھ دھند ملتی ہے اور اسی دھند میں دھواں پھنس کر سموگ بناتا ہے۔‘

سموگ کیسے بنتی ہے؟

یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب کے مطابق سموگ دو قسم کی ہوتی ہیں، جن میں ایک سلفررس سموگ اور دوسری کو فوٹو کیمکل سموگ کہا جاتا ہے۔

اور پاکستان میں جو سموگ موجود ہے وہ فوٹو کیمیکل ہے، جو تب بنتی ہے جب سورج کی روشنی نائٹروجن آکسائڈ اور ایک وولاٹائل کمپاؤنڈ (گاڑیوں اور دیگر ایدھن کے جلنے سے نکلنے والا دھواں) کے ساتھ ملتی ہے۔

 لاہور میں سموگ کی وجوہات میں گاڑیوں، اینٹوں کے بھٹوں اور صنعتوں سے نکلنے والا دھواں، ایندھن سے چلنے والے پاور سٹیشن اور کوڑا کرکٹ کا جلایا جانا شامل ہیں۔

پشاور میں سموگ کی صورت حال صبح اور شام کے بعد شدت اختیار کر جاتی ہے جب کہ دن کے دوسرے اوقات میں فضا قدرے صاف رہتی ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات