سب سے زیادہ آبادی والے انڈیا میں مردہ جسموں کا فقدان

مرکزی وزارت صحت کے پاس مردہ انسانی جسموں کے عطیات کا عوامی ڈیٹا تو نہیں لیکن سنگینی کا اندازہ رواں سال ریاستوں کے ہیلتھ سیکرٹریز کو اس سلسلے میں کی گئی اپیل سے لگایا جا سکتا ہے۔

4 نومبر، 2014 کو پیرس میں کینسر کے علاج میں مہارت رکھنے والے فرانسیسی ہسپتال انسٹی ٹیوٹ کیوری میں ڈاکٹر مریض کا آپریشن کر رہے ہیں (ڈومینیک فیجٹ/ اے ایف پی)

اپنی جذباتی سرگرمیوں کی وجہ سے زندگی کے کئی سال جیل میں گزارنے والے یونیورسٹی پروفیسر جی این سائی بابا کا جب گذشتہ ماہ انتقال ہوا تو انسانیت کے لیے ان کی آخری خدمت غیر متوقع تھی یعنی ان کے مردہ جسم کو تدریسی مقصد کے لیے استعمال میں لانا جسے ان کے خاندان نے گاندھی میڈیکل کالج حیدرآباد کو تعلیمی اور تحقیقی مقاصد کے لیےعطیہ کر دیا تھا۔

سائی بابا کی اہلیہ وسنتھا اور بیٹی منجیرا کے پاس اس بات پر غور کرنے کے لیے مختصر وقت تھا کہ کیا ان کی موت کے بعد چند گھنٹوں کے بعد ان کے مردہ جسم کو عطیہ کر دیا جائے؟ اور پھر یہ فیصلہ کیا گیا کہ بطور معلم ان کے تعیلم کو آزادی کے لیے ایک ٹول بنانے کے ان  تاحیات عقیدے پر عمل کرنا انہیں الوداع  کرنے کا بہتر طریقہ ہو گا۔

حالیہ یادداشت میں ایک ایسے ملک میں کسی اہم شخصیت کی جانب سے اپنے مردہ جسم کو عطیہ کرنا غیر معمولی واقعہ تھا جہاں ایسی قربانی دینا عام بات نہیں۔

گذشتہ ماہ کمیونسٹ پارٹی کے بزرگ رہنما سیتارام یچوری کے اہل خانہ نے بھی تدریسی اور تحقیقی مقاصد کے لیے اپنا مردہ جسم عطیہ کرنے پر ہیڈلائنز بنی تھیں۔

بنیادی طور پر دو عوامی شخصیات کی جانب سے یہ عطیات، جن کا مقصد ایسی وراثت کو عزت دینا تھا، دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں ایک وسیع اور بڑھتے ہوئے مسئلے پر بھی روشنی ڈالتے ہیں جہاں میڈیکل کی تعلیم اور تحقیق کے لیے مُردوں کی شدید کمی ہے۔

میڈیکل پیشہ ور اور کارکنان نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ایک ایسے ملک کے لیے جہاں صحت کی دیکھ بھال کا سب سے بڑا نظام موجود ہے اور جہاں طب کے شعبے میں طلبہ کی تعداد بڑھ رہی ہے، مردہ انسانی جسموں کی فراہمی خطرناک حد تک کم ہے جس سے طبی تربیت کے معیار کو نقصان پہنچنے کا خطرہ بھی ہے۔

مرکزی وزارت صحت کے پاس مردہ انسانی جسموں کے عطیات کا عوامی ڈیٹا نہیں ہے لیکن اس مسئلے کی سنگینی کا اندازہ رواں سال کے شروع میں ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام خطوں کے ہیلتھ سیکرٹریز کو کی گئی اپیل سے لگایا جا سکتا ہے۔

دا ہندو کی رپورٹ کے مطابق ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز اتل گوئل نے جولائی میں علاقائی بیوروکریٹس کو بتایا کہ ’ہمارے پاس ملک میں تعلیم کے لیے درکار انسانی مردہ انسانی جسموں کی کمی ہے۔‘

ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز نے ان پر زور دیا کہ وہ خاندانوں کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ صرف انسانی اعضا کے بجائے اپنے پیاروں کے مردہ جسم بھی عطیہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ یہ طبی اداروں میں انسانی مردہ انسانی جسموں کی کمی کو پورا کرنے میں بہت اہم ثابت ہو گا۔‘

مردہ انسانی جسم عطیہ کرنے کی حمایت کرنے والی اناٹومسٹ ڈاکٹر ویشالی بھرمبے، ، کہتے ہیں کہ انڈیا کے لوگوں کی ضرورت ہے کہ وہ میڈیکل ایجوکیشن کے بڑھتے ہوئے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ مردہ انسانی جسموں کے ساتھ آگے آئیں لیکن عطیہ کے نظام میں اضافہ نہیں دیکھا گیا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مردہ انسانی جسموں کمی کا مطلب ہے کہ بہت سے طلبہ انسانی جسمانی ماڈلز یا ڈیجیٹل سمولیشنز پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں جو کہ حقیقی ڈائسیکشن کے تجربے کا متبادل نہیں ہو سکتا۔

ڈاکٹر بھرمبے کا کہنا ہے کہ مطلوبہ شرح کے مطابق میڈیکل کے 10 طلبہ کے لیے ایک مردہ انسانی جسم کی بجائے انڈیا میں کچھ کالجوں میں ہر 50 طلبہ کے لیے صرف ایک مردہ انسانی جسم دستیاب ہے۔

اس کمی سے ڈاکٹروں کی ایک پوری نسل کو اس اہم عملی تربیت سے محروم ہونا پڑ رہا ہے جو ان کی مستقبل میں دیکھ بھال کے معیار پر گہرا اثر ڈالے گی۔

کارکنوں اور ڈاکٹروں نے دی انڈیپنڈنٹ کو بتایا کہ مردہ انسانی جسموں کی قلت کی وجوہات میں ثقافتی، مذہبی اور لاجسٹک رکاوٹوں اور آگاہی کی کمی ہے اور اسی وجہ سے جسم کے عطیہ کے لیے سسٹمیٹک سپورٹ کی کمی ہے۔

سماجی تنظیم ’آرگن انڈیا‘ کی چیف ایگزیکٹیو سنائینا سنگھ نے اس بارے میں بتایا: ’2017 کے آس پاس، ہمیں متعدد کالز موصول ہو رہی تھیں کہ کیسے اور کہاں عطیہ دیا جائے۔‘ ’آرگن انڈیا‘ انسانی اعضا اور مردہ انسانی جسموں کے عطیات میں معاونت کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جو ممکنہ عطیہ دہندگان اور ان کے خاندانوں کے لیے قابل رسائی معلومات کی عدم موجودگی کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہے۔

اس سے نمٹنے کے لیے ان کی ٹیم نے ایک آن لائن ڈائرکٹری بنانے کے لیے ایک سال طویل پروجیکٹ شروع کیا۔

ان کے بقول: ’ہم نے انڈیا بھر کے میڈیکل کالجوں سے رابطہ کیا، لہذا اب اگر کہیں سے بھی، مثلاً آپ کرناٹک میں ہیں، تو آپ ہماری سائٹ پر جا سکتے ہیں، اپنی ریاست اور شہر کا انتخاب کر کے رابطہ کی تفصیلات کے ساتھ کالجوں کی فہرست دیکھ سکتے ہیں۔ ہم اس عمل کو آسان بنانا چاہتے تھے تاکہ لوگوں کو معلومات کے لیے لامتاہی تلاش نہ کرنا پڑے۔‘

اس این جی او کے پاس لوگوں کی ایک ٹیم ہے جو عطیہ دہندگان کی مدد کرتی ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے میڈیکل کالجوں کے ساتھ تعاون کرتی ہے کہ عطیہ کے عمل کو آسانی سے چلایا سکے۔ لیکن بعض اوقات ان کی بہترین کوششیں بھی کافی نہیں ہوتیں۔

سنائینا سنگھ اکتوبر میں دسہرہ کے ہندو تہوار سے ایک مثال شیئر کرتے ہوئے بتاتی ہیں: ’ہمیں حیدرآباد سے فون آیا اور انہوں نے کہا کہ خاندان کے ایک رکن کی موت ہو گئی ہے اور وہ ان کے مردہ جسم کو عطیہ دینا چاہتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا: ’وہ ایک مخصوص کالج کو ہی یہ عطیہ کرنا چاہتے تھے۔ میں اسے کالج پہنچانا چاہتا تھی لیکن ان دنوں دسہرہ کی چھٹیاں تھیں۔ سب گھر جا چکے تھے۔ بنیادی طور پر ہم نے کوشش کی، واقعی سخت جدوجہد کی۔ ہم نے دوسرے قریبی کالجوں سے بھی بات کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ آپ جانتے ہیں اس دوران چھٹیاں تھیں۔‘ ان کی آواز میں مایوسی عیاں تھی کیونکہ وہ ہسپتالوں اور ریاستی اور مرکزی حکومتوں سے بہتر تعاون چاہتی ہیں۔

ان کے بقول: ’اگر کالجوں میں کسی کو 24 گھنٹے کھڑا رکھا جا سکتا ہے، یہاں تک کہ تعطیلات کے دوران بھی، یہ یقینی بنانے کے لیے کہ یہ مربوط اور مؤثر طریقے سے کام کرے۔ اگر ایمبولینس کسی بھی شخص کے گھر بھیجی سکتی ہے تو لوگوں کے لیے اپنے جسم کا عطیہ کرنا بڑی بات ہے اور موت ہفتے کے ورکنگ ڈیز اور صبح نو سے شام پانچ بجے تک نہیں آتی۔‘

اکھل واگھ جیسے خاندانوں کے لیے، مردہ جسم کا عطیہ کرنا ایک گہرا جذباتی عمل ہے۔

ان کے والد جے پرکاش واگھ موت کے بعد اپنا مردہ جسم عطیہ کرنا چاہتے تھے اور ان کی والدہ ممتا واگھ نے بھی ایسا ہی کرنے کا فیصلہ کیا۔

شکاگو میں رہنے والے اکھل واگھ نے اپنی والدہ کے الفاظ دہراتے ہوئے کہا: ’آخر، اگر جسم کو جلا دیا جائے تو اس کا کیا فائدہ؟ اس طرح یہ زندہ رہتا ہے، طالب علموں کو سیکھنے میں مدد کرتا ہے، شاید اس سے ایک دن جان بھی بچائی جا سکتی ہے۔ُ

خاندان نے ابتدائی طور پر پونے شہر، جہاں ان کے والدین رہتے تھے، کے ایک آیورویدک ہسپتال میں مردہ جسم کے عطیہ کے لیے اندراج کرایا تاہم، ہسپتال نے مردہ جسموں کو منتقل کرنے کی ذمہ داری لواحقین پر عائد کر دی۔ اس لیے انہوں نے اس کے بجائے ایک پرائیویٹ ہسپتال سے رجوع کیا جس نے نقل و حمل اور دستاویزات کی سہولت فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پچھلے سال جب واگھ کے والد کا انتقال ہوا تو بھی ان کے خاندان کی وصیت سے وابستگی کا امتحان لیا گیا۔ انہیں اچانک دل کا دورہ پڑنے پر پونے کے ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کی امید تھی۔ واگھ امریکہ میں تھے اور یہ ان کی والدہ پر چھوڑ دیا گیا تھا کہ وہ اپنے شوہر کی آخری خواہش کو یقینی بنائے۔

انہوں نے کہا: ’میری ماں نے یہ سب سنبھال لیا۔ انہیں ڈاکٹر کے سرٹیفکیٹ اور موت کے سرٹیفکیٹ کا انتظام کے ساتھ ساتھ ہسپتال کے ساتھ تعاون کرنا تھا اور انہوں نے یہ سب ناقابل یقین طاقت کے ساتھ اکیلے ہی کیا۔

بھرمبے کہتے ہیں کہ ’خاندان کے کسی فرد کے لیے اس لمحے میں ایسا کرنا آسان نہیں ہے۔ ہم اس بات کا کریڈٹ نہیں دیتے کہ جس لمحے وہ اپنے کسی پیارے کو کھو دیتے ہیں، انہیں وہ کال کرنی ہوتی ہے۔ سوگ منانے کے بجائے، انہیں میڈیکل کالج سے رابطہ کرنا ہوتا ہے۔‘

ان کے بقول: ’انہیں یہ چھ گھنٹوں کے اندرکرنا ہوتا ہے جس میں تمام کاغذی کارروائی اور مردہ جسم کا عطیہ کرنا شامل ہے۔ ہمارے جیسے گرم ملک کے لیے کسی شخص کو مرنے کے چھ گھنٹے کے اندر عطیہ دینا چاہیے۔ خیال یہ ہے کہ عطیہ دہندہ اور ان کے اہل خانہ کو کم سے تکلیف دی جانی چاہیے جب عطیہ دہندہ مر جاتا ہے اور اس کا جسم چھ گھنٹے بعد خراب ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

لیکن عمل مشکل ہے۔

انڈیا کے قومی ڈیجیٹل شناختی کارڈ سسٹم کا حوالہ دیتے ہوئے بھرمبے کہتی ہیں: ’سب سے پہلے خاندان کے کسی فرد کو لاش کی شناخت اور عطیہ دہندہ کی شناخت کی تصدیق کے لیے ایک آدھار (شناختی) کارڈ فراہم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمیشہ یہ خطرہ ہوتا ہے کہ کوئی شخص کسی جرم کو چھپانے کے لیے کسی لاش کو اپنے رشتہ دار کے طور پر منتقل کرنے کی کوشش کر سکتا ہے اس لیے تصدیق کا یہ مرحلہ انتہائی اہم ہے۔‘

’اس کے ساتھ طبی دستاویزات بھی درکار ہوتے ہیں، بشمول موت کی وجہ والا  ڈیٹھ سرٹیفکیٹ۔ کچھ ریاستوں میں، عطیہ کرنے سے پہلے میونسپل کارپوریشن کے ساتھ موت کا اندراج کرنا بھی لازمی ہے۔ اس تمام کاغذی کارروائی کو مکمل کرنے میں وقت لگ سکتا ہے، خاص طور پر اگر موت رات کے وقت واقع ہو۔‘

بھارمبے کہتی ہیں: ’تصور کریں کہ کوئی آدھی رات کو مر جاتا ہے۔ اگلے دو گھنٹوں میں موت کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے لیے ڈاکٹر کی تلاش مشکل ہے اور یہ تاخیر پورے عمل کو خاندان کے لیے مزید مشکل بنا سکتی ہے۔‘

ایسی قانونی پابندیاں بھی ہیں جو ممکنہ عطیہ دہندگان کی تعداد کو مزید کم کر دیتی ہیں۔ بھرمبے کا کہنا ہے کہ مردہ جسم جو پوسٹ مارٹم سے گزرنے والے افراد، حادثے کا شکار ہونے والے متاثرین یا ایڈز اور تپ دق جیسی بیماریوں میں مبتلا مریضوں سے آتے ہیں، وہ تعلیمی ڈائسیکشن میں استعمال نہیں کی جا سکتے۔

وہ میڈیکل کالج پہنچنے پر عطیہ کی گئی لاش کو سنبھالنے اور اسے محفوظ کرنے کے طریقہ کار کی وضاحت کرتے ہوئے بتاتی ہیں: ‘ایک بار جب مردہ جسم کالج تک پہنچ جاتا ہے، اسے دھویا جاتا ہے اور پھر اسے امبلنگ انجکشن لگایا جاتا ہے۔ یہ رطوبتیں سے تحفظ فراہم کرتا ہے، گلنے سڑنے سے روکتا ہے اور جسم کو طبی تعلیم کے لیے استعمال کرنے کے قابل بناتا ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے جسم کو ایک ایمبلنگ لوپ میں رکھا جاتا ہے کہ یہ خراب نہ ہو اور وقت کے ساتھ ساتھ استعمال کے قابل رہے۔‘

’اگلے پورے سال کے دوران طلبہ انسانی اناٹومی کی پیچیدگیوں کو سیکھنے اور سمجھنے کے لیے مراحل میں اس مردہ جسم کو کاٹ کر اس کا مطالعہ کریں گے۔ میڈیکل کا ایک طالب علم جب سرجری کے شعبہ میں پہنچتا ہے تو دراصل ایک حقیقی انسانی جسم کا مطالعہ کرتا ہے۔ وہ اس بات سے بہت زیادہ واقف رکھتا ہے کہ انسانی مسلز اصل میں کیسے محسوس ہوتے ہیں۔ وہ اپنے تخیل پر انحصار نہیں کرتا کیونکہ یہ قدرتی طور پر ان کا مطالعہ کرتے ہیں۔‘

ٹیکنالوجی میں ترقی کا مطلب یہ ہے کہ میڈیکل کے طالب علم اب اپنی پڑھائی کے لیے ورچوئل ہیومن کیڈور (تخیلاتی انسانی جسم) کا استعمال کر سکتے ہیں لیکن بھرمبے کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔

ان کے بقول: ’آپ اپنا چشمہ پہنتے ہیں اور جو کچھ آپ اپنے سامنے دیکھتے ہیں وہ ایک اصل انسانی لاش ہے۔ آپ پٹھوں کو کاٹ سکتے ہیں، انہیں واپس سی سکتے ہیں. یہ ایک تھری ڈی مطالعہ ہے۔ کیا ورچوئل ہیومن کیڈور انسانی جسم کی جگہ لے لیں گے؟ یہ کبھی بھی ایک حقیقی انسان کے احساس کی جگہ نہیں لے سکتا۔‘

وہ کہتی ہیں: ’کوئی ٹیکنالوجی نہیں ہے جو آپ کو تصور کرنے کی اجازت دے گی کہ ایک شخص کے اندر مختلف اعضا کیسے محسوس ہوتے ہیں۔ آپ کو ایک مردہ جسم  چاہیے ہو گا۔‘

موت اور بعد کی زندگی کے ارد گرد مذہبی اور ثقافتی عقائد اس عمل کو مزید پیچیدہ بنا دیتے ہیں۔ بہت سے خاندان موت کے فوراً بعد مذہبی رسومات ادا کرنا پسند کرتے ہیں اور وہ ان رسومات میں خلل ڈالنے کے خدشے سے مردہ جسم سائنسی تحقیق کے لیے دینے سے ہچکچاتے ہیں کیوں کہ انہیں ڈر ہوتا ہے کہ وہ آخری رسومات ادا نہ کر کے سکون نہیں پا سکیں گے۔

بھرمبے کہتی ہیں: ’لوگوں کو خوف ہے کہ وہ ان اہم مذہبی تقریبات کو مکمل نہیں کر پائیں گے۔ بعض اوقات خاندان پوچھتے ہیں کہ کیا وہ جسم کا کوئی حصہ آخری رسومات کے لیے حاصل کر سکتے ہیں لیکن انڈیا کا قانون اس کی سختی سے ممانعت کرتا ہے۔ جبکہ خاندانوں کو رسومات کے حوالے سے جذباتی یا نفسیاتی احساس میں مدد کرنے کے طریقوں پر تحقیق جاری ہے۔ موجودہ قانون (عطیے کے بعد) اپنے پیاروں کو باقیات واپس کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔‘

ایک بار جب عطیہ کردہ مردہ جسم اپنے تدریسی مقصد کو پورا کر لیتا ہے تو حکومتی ضابطوں کے مطابق اسے جلایا جانا ضروری ہوتا ہے۔

بھرمبے کہتی ہیں: ’ہسپتالوں کے پاس یا تو دفنانے کے لیے اپنی جگہ ہوتی ہے یا پھر جلانے والوں کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے لاشوں کو جلایا جاتا ہے۔ لہذا اس مرحلے پر کوئی بھی مذہبی رسومات شامل نہیں ہوتیں۔ُ

سائی بابا کی اہلیہ اب بھی اپنے بچپن کے دوست، پیار اور شریک حیات کے کھو جانے پر غمزدہ ہیں لیکن انہیں اس بات سے تسلی ملتی ہے کہ ان کا آخری عمل ان کی کی سوچ سے ہم آہنگ تھا۔ وہ کہتی ہیں: ’کم از کم ہم ان کی عزت کرنے کے لیے ایسا کر سکتے ہیں۔ وہ ہمیشہ سکھانا، علم دینا چاہتے تھے۔‘

اپنے پیارے کے مردہ جسم دینے کے جذباتی چیلنجوں پر غور کرتے ہوئے وسانتھا کہتی ہیں: ’کالج نے کہا کہ ہم کسی بھی وقت  اسے دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن وہ میرے دل میں، میری آنکھوں میں اور میرے خیالات میں ہے۔ اسے دوبارہ دیکھنے سے کچھ نہیں بدلے گا۔ وہ پہلے ہی یہاں میرے ساتھ ہیں۔ ان کا جسم اب ایسے طلبہ کی خدمت کرتا ہے جو اس سے سیکھ سکتے ہیں، جیسا کہ وہ ہمیشہ چاہتے تھے۔ میں نے انہیں ذمہ داری سونپی ہے۔‘

اپنے والد کی موت کے چند ہفتے بعد واگھ انڈیا واپس آئے اور اس پرائیویٹ ہسپتال گئے جس کو لاش عطیہ کی گئی تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ انہیں سکون کا احساس ہوا۔

’مجھے انہیں آخری بار دیکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ میرے لیے محض یہ جاننا ہی کافی تھا کہ وہ وہیں تھے جہاں وہ ہونا چاہتے تھے، ان کا مقصد پورا ہو رہا تھا۔ یہ جان کر تسلی ہوتی ہے کہ ان کا جسم زندگی کی طرح دوسروں کی مدد کرے گا۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین