وسطی انڈیا کے ایک ٹائیگر ریزرو میں 13 کے جھنڈ میں سے 10 ہاتھی تین دنوں میں موت کے منہ میں چلے گئے۔ حکام حیران ہیں کہ ہاتھیوں کی موت کی وجہ کیا ہے؟
مدھیہ پردیش کے بندھاو گڑھ ٹائیگر ریزرو میں ہاتھی منگل کو مرنا شروع ہوئے۔ سفاری پارک کے محافظ نے تقریباً دوکلومیٹر دور اپنے باضابطہ کیمپ سے کچھ ہاتھیوں کو پریشان حالت میں دیکھا اور اپنے اعلیٰ افسروں کو آگاہ کیا، جنہوں نے فوراً وٹنری ٹیمیں بھیج دیں۔
وٹنری ڈاکٹروں نے دیکھا کہ چار ہاتھی مر چکے ہیں۔ انہوں نے باقی ہاتھیوں کو طبی امداد فراہم کی لیکن بدقسمتی سے بدھ کی رات مزید چار ہاتھی موت کے منہ میں چلے گئے اور پھر جمعرات کو ایک اور جوڑا۔
حکام کا کہنا ہے کہ وہ ہاتھیوں کی موت کی وجہ سمجھنے کے لیے پوسٹ مارٹم رپورٹوں کا انتظار کر رہے ہیں۔
این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق جھنڈ کے تین باقی بچ جانے ہاتھیوں کی نگرانی کی جا رہی ہے۔
نیشنل ٹائیگر کنزرویشن اتھارٹی اور پرنسپل چیف کنزروٹر آف فارسٹ کی ٹیمیں بندھو گڑھ میں معاملے کی آزاد چھان بین کے لیے پہنچی ہیں۔
ان سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ اگلے 10 دنوں میں ابتدائی رپورٹ پیش کریں گی۔
تحقیقات کا مقصد یہ جانچنا ہے کہ کیا ہاتھیوں کا بڑے پیمانے پر موت کے منہ میں جانا حادثہ ہے یا ہاتھیوں کو جان بوجھ کر مارا گیا۔
ایک سرکاری عہدے دار نے، جن کا نام ظاہر نہیں کیا گیا، اخبار انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ ’اس بات کی تحقیق کی جا رہی ہے کہ آیا یہ زہر دینے کا معاملہ تھا یا نہیں۔ کچھ نشانیاں موجود ہیں لیکن ہم صرف پوسٹ مارٹم کی رپورٹ آنے پر ہی یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں۔‘
بندھاو گڑھ ٹائیگر ریزرو کے نائب ڈائریکٹر پی کے ورما نے ایک مقامی فصل کی جانب اشارہ کیا جو کودو کہلاتی ہے۔ یہ فصل بعض اوقات ہاتھیوں کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ ’ہم مختلف سراغوں کی جانچ کر رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ کودو جو ہاتھیوں کے لیے زہریلی ثابت ہو سکتی ہے، نے اس میں کردار ادا کیا ہو۔‘
ہاتھیوں کی موت کے بعد پارک کے حکام نے احتیاطی تدبیر کے طور پر علاقے میں کودو کی فصل تلف کر دی۔ کھڑی فصل کو ہل چلا کر اور جلا کر ختم کیا گیا۔
وٹنری ڈاکٹروں کی ایک ٹیم الگ سے معاملے کی چھان بین کر رہی ہے۔
محکمہ جنگلی حیات کے ایک اہلکار نے دی ایکسپریس کو بتایا کہ ’ڈاکٹروں کی ایک بڑی ٹیم معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔ ہم بنیادی طور پر انہیں زہر سے ہونے والی انفیکشن کے علاج کر رہے ہیں۔ انہیں ٹیکے لگائے جا رہے ہیں۔
’کئی دیہاتیوں سے کودو کے پودوں پر کیڑے مار ادویات کے استعمال کے بارے میں پوچھ گچھ کی گئی ہے۔ دیہاتیوں نے دعویٰ کیا کہ یہ کام جان بوجھ کر نہیں کیا گیا۔ تحقیقات جاری ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ماہرین نے ہمیں بتایا کہ ماضی میں ہاتھیوں کی موت کے واقعات ہوئے ہیں جس کی وجہ کودو کی فصل کھانا ہے اور ایسے کیسز بھی ہیں جن میں کامیابی سے علاج کیا گیا۔‘
ہاتھیوں کی موت کی تحقیقات میں محکمہ جنگلی حیات کے ایک سو زیادہ اہلکار شامل ہیں۔ ان کے ساتھ کتے بھی ہیں۔ یہ اہلکار پانی کے قریبی ذخائر کی جانچ کر رہے ہیں۔
ہاتھیوں کی نقل و حرکت پر غور کیا جا رہا ہے اور جہاں ہاتھی مردہ پائے گئے اس کے پانچ کلومیٹر کے دائرے میں فصلوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ ٹیم اس علاقے سے مٹی کے اور پودوں کے نمونے بھی جمع کر رہی ہے۔
تاہم اس تحقیقات میں بڑے اور زیادہ جارح مزاج ہاتھیوں کی جھنڈ اور علاقے میں تین شیروں کی موجودگی نے رکاوٹ ڈال رکھی ہے۔
حالیہ برسوں میں بندھاو گڑھ میں ہاتھیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے یہاں تک کہ پڑوسی ریاست چتھیس گڑھ سے بھی ہاتھی یہاں آ رہے ہیں۔
اپنے مثالی قدرتی مسکن کی بدولت مشہور ریزرو کی ہاتھیوں کے لیے پناہ گاہ کے طور پر شہرت اب اس سانحے کی وجہ سے متاثر ہوئی ہے اور علاقے میں جنگلی حیات کے انتظام اور تحفظ کے قواعدوضوابط کے بارے میں خدشات نے جنم لیا ہے۔
© The Independent