افغان طالبان نے امریکی ادارے کی اس رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امارت اسلامیہ میں خواتین پر پابندیوں کی وجہ سے ان میں ڈپریشن اور خودکشی کرنے کے رجحان میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
افغانستان کی تعمیر نو پر نظر رکھنے والے امریکہ کے سرکاری ادارے سپیشل انسپکٹر جنرل آف افغانستان ری کنسٹرکشن (سیگار) نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ افغان طالبان کی خواتین پر پابندیوں کی وجہ سے ان میں ڈپریشن اور خودکشی کرنے کی سوچ میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔
افغان طالبان کی عبوری حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’اتنی بڑی تعداد جو رپورٹ میں بتائی گئی ہے کہ خودکشی کی سوچ رکھتی ہے اور اتنا برا حال ہے تو یہ بےبنیاد ہے۔‘
سیگار کی جانب سے مختلف شعبہ جات پر سہ ماہی رپورٹ جاری کی جاتی ہے، اس مرتبہ رپورٹ میں افغانستان میں خواتین کے حوالے سے ایک حصہ شامل کیا گیا ہے۔
تین برس قبل افغان طالبان نے ملک میں چھٹی جماعت کے بعد لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کر دی تھی۔ سیگار کی رپورٹ کے مطابق اس فیصلے کے بعد افغانستان میں 25 لاکھ تک لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اپریل 2024 سے اکتوبر 2024 تک ہونے والے سروے میں سامنے آنے والے اعداد و شمار سے معلوم ہوا ہے کہ وہ خواتین جن کی تعلیم پر پابندی عائد کی گئی ہے، ان میں 87 فی صد سے زائد میں ڈپریشن کی علامات پائی گئی ہیں۔
اسی طرح سروے کے نتائج کے مطابق ان خواتین میں تقریباً 50 فی صد ایسی تھیں، جن میں خود کشی کرنے کی سوچ پائی جاتی تھی۔
اس سروے کے لیے 426 خواتین سے بات کی گئی اور نتائج کے مطابق ان میں 18 فی صد ایسی تھیں جو سروے کے دورانیے میں کسی بھی خاتون سے اپنے گھر سے باہر نہیں ملی تھیں۔
آٹھ فی صد خواتین کم از کم ایک خاتون کو جانتی تھیں جنہوں نے خود کشی کرنے کی کوشش کی ہے۔
اسی رپورٹ کے مطابق جہاں ایک جانب امارت اسلامیہ میں ذہنی صحت کے مسائل کا یہ عالم ہے، وہیں دوسری جانب گذشتہ سال نومبر میں طالبان کی جانب سے خواتین کی دیگر سروسز کے ساتھ ذہنی صحت سے متعلق سہولیات پر بھی پابندی عائد کی گئی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم رپورٹ کے مطابق کچھ غیرسرکاری بین الاقوامی تنظیمیں خواتین کی ذہنی صحت کے حوالے سے کسی نہ کسی طریقے سے خدمات فراہم کر رہی ہیں۔
اس شعبے میں یونیسیف نے تین ہزار سوشل ورکرز کی بھی تربیت کی ہے، جبکہ عالمی ادارہ صحت نے افغان طالبان کی وزارت صحت کے اشتراک سے 380 ڈاکٹروں کو ٹریننگ دی تھی تاکہ مریضوں کو ذہنی صحت کے معاملات میں مدد فراہم کی جا سکے۔
گذشتہ برس عالمی ادارہ صحت نے افغانستان کے چار صوبوں میں مینٹل ہیلتھ وارڈ بنائے اور کابل میں ذہنی مسائل کے تدارک کے لیے 100 بیڈز کا ہسپتال بھی بنایا۔
اس ہسپتال میں گذشتہ برس ایک لاکھ 87 ہزار سے زائد مریضوں کا علاج کیا گیا۔
تعلیمی پابندیاں اور دوران زچگی اموات میں اضافہ
سیگار کی رپورٹ میں تعلیمی پابندیوں کی وجہ سے خواتین کے ہاں کم عمری میں بچوں کی پیدائش اور دوران زچگی شرح اموات میں متوقع اضافے پر بھی بات کی گئی ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2026 تک تعلیمی پابندیوں کی وجہ سے کم عمری میں ماں بن جانے میں 45 فی صد اضافہ متوقع ہے جبکہ اس وجہ سے دوران زچگی ماؤں کی اموات میں 50 فی صد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔
2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں دوران زچگی خواتین کی اموات کی شرح میں افغانستان آٹھویں نمبر پر ہے اور ہر ایک لاکھ بچوں کی پیدائش کے دوران 620 خواتین موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔
سیگار کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ (یو این) پاپولیشن کے مطابق ہر مہینے افغانستان میں 20 ہزار بچے ایسے علاقوں میں پیدا ہوتے ہیں جہاں صحت کی بنیادی سہولیات تک رسائی نہیں ہے۔
مبصرین کیا کہتے ہیں؟
پشاور یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ اف کانفلکٹ سٹڈیز میں شعبہ سماجیات کے پروفیسر اور افغانستان کے معاشرے اور تہذیب و تمدن پر مختلف تحقیقی مقالے لکھنے والے ڈاکٹر جمیل احمد چترالی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ افغانستان کے معاشرے کو مغربی نظر سے دیکھنا ایسا ہے جیسے سونے کو لوہے کے ساتھ تولنا۔
انہوں نے بتایا کہ افغانستان کی تاریخ میں اب تک مردم شماری نہیں ہوئی اور خواتین سمیت ایسے دیگر معاملات پر ماضی کی جمہوری حکومتیں اور جہادی تنظیمیں خاموش ہیں۔
جمیل چترالی کے مطابق: ’افغانستان کے اندرونی محرکات مختلف ہیں، خواتین میں ڈپریشن اور دیگر مسائل کو دو تین سالوں کے پابندی سے نہیں جوڑا جا سکتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا: ’میں یہ نہیں کہتا کہ تعلیم کی اہمیت نہیں ہے لیکن جنگ کے بعد دو تین سال سے بند تعلیمی اداروں کو ڈپریشن کی وجہ گرداننا مبالغہ آرائی لگتا ہے۔‘
جمیل چترالی کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ ہو سکتا ہے کہ سروے کا نمونہ بہت کم خواتین پر مشتمل ہو یا اس میں ان خواتین کی تعداد زیادہ ہو جو سابق حکومت میں نوکری کر کے وظیفہ لیتی تھیں یا سرکاری تعاون سے تعلیم حاصل کر رہی تھیں تاہم یہ طبقہ بہت کم ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ افغانستان کی بڑی آبادی اب بھی قبائلی طرز کی ہے اور اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ انہیں تعلیم پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
جمیل چترالی نے بتایا: ’میری معلومات کے مطابق افغانستان کے ہسپتالوں میں خواتین نرس اور ڈاکٹرز کچھ کام کر رہے ہیں۔
’وہ خاندان جن میں اب ڈپریشن پایا گیا ہے، وہ پہلے جنگ کی وجہ سے اور اب تعلیمی اور دیگر پابندیوں کی وجہ سے ہے۔ امارت اسلامی کے دور میں اس مسئلے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘
افغان طالبان کیا کہتے ہیں؟
افغان طالبان کی عبوری حکومت کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سیگار کی رپورٹ میں دیے گئے اعداد و شمار ہم مسترد کرتے ہیں اور اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا: ’اتنی بڑی تعداد جو رپورٹ میں بتائی گئی ہے کہ خودکشی کی سوچ رکھتی ہے اور اتنا برا حال ہے تو یہ بےبنیاد ہے۔‘
ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا کہ خواتین کی ایک بڑی تعداد افغانستان کے سرکاری محکموں، صحت، پولیس اور تعلیم کے شعبے میں کام کر رہی ہیں اور اپنے کام میں مصروف ہیں۔
اسی طرح بعض خواتین جن کو ابھی تک کام لیے ماحول فراہم نہیں کیا گیا تو ان کو گھر پر حکومت کی جانب سے تنخواہ مل رہی ہے۔
تاہم ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق خواتین کی تعلیم کے موضوع پر کام جاری ہے اور اس کے لیے طریقہ کار وضع کیا جا رہا ہے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا لیکن اس مسئلے کے نتائج جو رپورٹ میں بیان کیے گئے ہیں، درست نہیں ہیں۔