پاکستان بحریہ کا کہنا ہے کہ وہ انڈیا کی جانب سے موریشس کے جزائر میں خفیہ اڈے قائم کرنے کے عمل سے خوفزدہ نہیں ہے، تاہم ہر قسم کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ضروری اقدامات کیے گئے ہیں۔
اسلام آباد میں جمعے کو غیر ملکی میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں پاکستان نیوی کے ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز کموڈور احمد حسین نے کہا: ’ہم اپنی حفاظت کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ یہ کافی واضح ہے۔ آپ صورت حال پر نظر رکھتے ہیں۔‘
گذشتہ دنوں سامنے آنے والی میڈیا رپورٹس کے مطابق انڈیا نے ماریشس کے دارالحکومت سے 1,100 کلومیٹر جنوب میں واقع ایک جزیرے پر اپنا نیا خفیہ فوجی اڈہ بنا لیا ہے۔ یہ پیش رفت 2015 میں ماریشس اور انڈیا کے درمیان ایک معاہدے کے تحت ہوئی، جس میں 3000 میٹر طویل فضائی پٹی اور ایک جیٹی تعمیر کی جانی تھی۔ تاہم اگلیگا نامی اس جزیرے کے کچھ رہائشیوں کا خیال ہے کہ جزیرہ مکمل طور پر ایک فوجی اڈہ بن گیا ہے۔
پاکستانی سکیورٹی حکام کا اندازہ ہے کہ یہ فوجی اڈے چین کو ذہن میں رکھ کر بنائے جا رہے ہیں۔
انہوں نے یاد دلایا کہ ستمبر میں پاکستان نیوی کے بیڑے میں نئی کشتی ’بابر‘ شامل کی گئی ہے اور آئندہ برس نئی آبدوزیں بھی شامل ہوں گی۔ ’میرا نہیں خیال کہ ہمیں کوئی خطرہ ہے لیکن ہم اپنے آپ کو تیار بھی رکھتے ہیں۔‘
حال ہی میں اس عہدے کی ذمہ داری اٹھانے والے نیوی کے سینیئر کمانڈر کا کہنا تھا کہ ماضی میں وہ دیکھ چکے ہیں کہ انڈین آبدوزیں ہمارے ساحل کے قریب آئیں۔ ان کے یہاں آنے کا ماسوائے اس کے کوئی مقصد نہیں تھا کہ وہ انٹیلی جنس اکٹھی کریں یا دھمکائیں۔ ’ہمیں اپنے سمندری مفادات کا تحفظ کرنا ہے، اس لیے تمام سرحد پر نگرانی کی جاتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن کموڈور احمد نے واضح کیا کہ وہ کبھی بھی ایسی کوئی کارروائی نہیں کرتے۔
بحری اڈوں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ مشترکہ چیلنج ہوتے ہیں۔ ’آئندہ برس فروری میں مشترکہ امن مشقیں اس سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ ان سالانہ مشقوں، جن میں گذشتہ برس 50 ممالک نے شرکت کی، کا مقصد بین الاقوامی حمایت اور تجربہ حاصل کرنا ہے۔‘
تقریباً روزانہ ہی انڈیا ماہی گیروں کو حراست میں لیے جانے کی رپورٹس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ انڈین ماہی گیروں پر نظر رکھنی پڑتی ہے کیونکہ تمام معصوم نہیں ہوتے۔ ’اگر کوئی ماہی گیر ضرورت سے زیادہ ساز و سامان اور آلات کے ساتھ آتا ہے تو وہ ایسا بے وجہ تو نہیں کرتا۔‘
ترجمان پاکستان بحریہ کے مطابق آئندہ برس کی کثیرالقومی بحری مشق امن میں انہیں امید ہے کہ ماضی سے زیادہ ممالک کی بحری افواج شرکت کریں گی۔ ان کے مطابق ترکی اور مصر نے فی الحال شرکت کی تصدیق کی ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک بھی تصدیق کر دیں گے۔
پاکستان بحریہ 2007 سے ان امن مشقوں کا انعقاد کر رہی ہے جنہیں وہ کثیرالجہتی بحری خطرات سے نمٹنے کے لیے مشترکہ میری ٹائم سکیورٹی کے لیے انتہائی اہم قرار دیتی ہے۔ اس سال بحریہ کے علاوہ کوسٹ گارڈز کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔
اس برس ایک فرق ڈائیلاگ کا ہوگا، جس میں اصل پریکٹیشنز شرکت اور تبادلہ خیال کریں گے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ کثیرالقومی بحری مشق امن میں معلومات کے تبادلے سے مشترکہ بحری مفادات کے تحفظ کو فروغ ملے گا۔