پاکستان میں مواصلات کے نگران ادارے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے جمعرات کو سینیٹ کی ایک کمیٹی میں بتایا کہ کہ آن لائن کاروبار کو مدنظر رکھتے ہوئے ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک (وی پی این) کی وائٹ لسٹنگ کی جا رہی ہے جس کے بعد ملک میں وی پی اینز استعمال ہو سکیں گے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکرٹریٹ کے چیئرمین سینیٹر رانا محمود الحسن کی زیر صدارت ہونے والے آج اجلاس میں چیئرمین پی ٹی اے حفیظ الرحمن نے بتایا کہ ’ایکس (سابقہ ٹوئٹر) کی بندش حکومت کا فیصلہ ہے، جس دن حکومت کہے گی ایکس کھول دیں گے۔
’پی ٹی اے حکومت کے کہنے پر سوشل میڈیا پلیٹ فارم بند کرتا ہے۔‘ انہوں نے ایوان بالا کی کمیٹی کو بتایا کہ ’حکومت سوشل میڈیا کے حوالے سے ملنے والی شکایات پر متعلقہ پلیٹ فارم سے رابطہ کرتی ہے کہ یہ چیز پاکستان کے قوانین کے خلاف ہے۔
’تاہم سوشل میڈیا پلیٹ فارمز میں ٹک ٹاک ہماری شکایت پر سب سے زیادہ ایکشن لیتے ہوئے بلاک کرتا ہے۔ اس ضمن میں ایکس سب سے کم عمل درآمد کرتا ہے۔ ہم پورا فیس بک یا ایکس بلاک کر سکتے ہیں لیکن اس پر صرف ایک پوسٹ بلاک نہیں کر سکتے۔‘
وی پی این کو محدود کرنے کا عندیہ
چیئرمین پی ٹی اے نے ملک میں چلنے والے وی پی اینز کو محدود کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ’وی پی این بلاک کیا جا سکتا ہے لیکن اس پر آپ کا سارا کاروبار چلتا ہے، وی پی این کی وائٹ لسٹنگ کر رہے ہیں کہ مخصوص وی پی این پاکستان میں چلے گا باقی نہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پاکستان میں ایکس (سابقہ ٹوئٹر) کی بندش کے باعث ملک میں ایکس کے صارفین 70 فیصد کم ہوئے ہیں جبکہ 30 فیصد صارفین وی پی این کے ذریعے ایکس استعمال کر رہے ہیں۔‘
سینیٹ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر فاروق نائیک نے سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’موبائل مہنگا کر رہے ہیں، آپ رسائی روک رہے ہیں۔ یہ ملک کی ڈیجیٹلائزیشن کو روک رہے ہیں، معیشت کی ڈیجیٹلائزیشن کے لیے کیا کر رہے ہیں؟‘
سینیٹر عبدالقادر نے ایکس کھولنے کے حوالے سے سوال اٹھایا۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بھی ایکس سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کمیٹی کو بتایا کہ ملک میں شکایات پر ایکس کا عمل درآمد سب سے کم ہے۔
’ہمارے ملک میں مذہبی جذبات کے حوالے سے پوسٹ بلاک نہ ہو تو یہاں مظاہرے شروع ہو جاتے ہیں۔ حکومت کی جتنی دھلائی یوٹیوب اور ٹک ٹاک پر ہوتی ہے، اتنی ایکس پر نہیں ہوتی لیکن ہمیں دھلائی سے اختلاف نہیں۔‘
اعظم نذیر تارڑ نے سوشل میڈیا کمپنیز کے دفاتر پاکستان میں کھولنے سے متعلق کمیٹی کو بتایا کہ ’سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کہتے ہیں کہ پاکستان میں دفاتر کھولنے میں سکیورٹی مسائل ہیں، وہ ورچول دفاتر کھولنے کی بات کر رہے ہیں۔‘
اجلاس میں چئیرمین پی ٹی اے حفیظ الرحمن نے کمیٹی کو بتایا کہ ’ملک کی 56 فیصد آبادی کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت ہے جبکہ سیٹلائٹ پالیسی بھی مکمل کر لی گئی ہے۔‘
چئیرمین پی ٹی اے نے کہا ’فائیو جی کے لائسنس کی نیلامی اگلے برس مارچ یا اپریل میں ہونے کا امکان ہے۔‘
گذشتہ برس 29 اگست کو وزارت انفارمیشن و ٹیکنالوجی کی جانب سے ’آئندہ 10 ماہ میں فائیو جی کی نیلامی‘ ہونے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم تقریبا ایک سال گزرنے کے بعد چئیرمین پی ٹی اے کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’موبائل فون کمپنی ٹیلی نار ایشیا سے جا رہی ہے اور ان کا موقف ہے کہ پاکستان میں صنعت کے لیے صورت حال اچھی نہیں اور ہم نقصان میں ہیں۔‘
دسمبر 2023 میں پاکستان ٹیلی کمیونیکشن لمیٹڈ نے ٹیلی نار موبائل فون کمپنی کے 100 فیصد حصص خریدنے کا معاہدہ کیا تھا۔
فیس بک اور انسٹا گرام کے ساتھ قانون سازی پر مذاکرات جاری: وفاقی وزیر قانون
چیئرمین کمیٹی رانا محمود الحسن نے سوال اٹھایا کہ ’سوشل میڈیا پر بین الاقوامی اشتہار آ جاتے ہیں، کیا وہ ٹیکس دیتے ہیں؟‘
جس کے جواب میں چئیرمین پی ٹی اے نے بتایا کہ ’اس وقت اس حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں ہے۔‘
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ ’بین الاقوامی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز فیس بک اور انسٹا گرام کے ساتھ اس حوالے سے مزاکرات کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو کمرشل کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، ساری دنیا میں ان پر ٹیکس لاگو ہے۔‘
اس معاملے پر سیکریٹری کابینہ نے بتایا کہ ’سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اشتہارات پر ٹیکسز کا معاملہ فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) کے ساتھ اٹھائیں گے۔ ‘
چئیرمین پی ٹی اے نے کمیٹی کو مزید بتایا کہ ’ٹیلی کام پر دو سال میں کوئی سائبر حملہ نہیں ہوا۔ ملک میں37 مقامی کمپنیاں موبائل بنا رہی ہیں جبکہ مقامی طور پر دو کروڑ موبائل سالانہ تیار ہو رہے ہیں۔
’پاکستان میں 40 فیصد سمارٹ فون ہیں جبکہ ملک میں ٹیلی کام صارفین پر 34.50 فیصد ٹیکس ہے۔ سری لنکا میں 20 سے 40 فیصد، بنگلہ دیش میں 21 سے 33 فیصد، انڈیا میں 18.5 فیصد اور نیپال میں 26 فیصد ہے۔‘
سوشل میڈیا پر کوئی پابندی نہیں: آئی ٹی وزیر
گذشتہ روز وفاقی حکومت نے فائروال کے ذریعے صارفین کے مواد کو کنٹرول کرنے کی تردید کی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیر مملکت برائے آئی ٹی شزا فاطمہ خواجہ نے انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے فائروال اور ٹوئٹر سے متعلق سوال کے جواب میں بتایا تھا کہ ’سوشل میڈیا پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ ملک میں سب سے زیادہ فیس بک اور ٹک ٹاک استعمال ہوتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’اگر زبان بندی کرنی ہوتی تو فیس بک اور ٹک ٹاک چل رہے ہوتے؟ سوچنے کی بات ہے کہ اگر وہ پلیٹ فارم کھلے ہوئے ہیں تو ٹوئٹر کیوں بند ہے؟‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کسی بھی حکومت کے لیے سائبر سکیورٹی بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ فائر وال سے مواد کنٹرول ہونا مفروضے ہیں، حکومت کے پاس cyber security capability ہونا ضروری ہے۔
’کیا کسی نے کسی کے اکاونٹ سے کوئی پوسٹ ہٹائی ہے؟ بلاوجہ افواہیں پیدا کی جاتی ہیں کہ فائر وال سے مواد کو کنٹرول کیا جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مقامی قوانین پر عملدرآمد کے معاملے پر ایکس سے بات چیت چل رہی ہے۔‘
وی پی این وائٹ لسٹنگ کیا ہے؟
وی پی این کمپنی پروٹون کی ویب سائٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق: وی پی این وائٹ لسٹنگ کا مطلب مخصوص آئی پی ایڈریس کو کسی گیٹ وے کے ذریعے کسی آن لائن پلیٹ فارم تک رسائی کی اجازت دینا ہے۔‘
چیئرمین پی ٹی اے نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وائٹ لسٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد ملک میں رجسٹریشن کے ذریعے سماجی رابطے کی ویب سائٹس استعمال ہو سکیں گی۔
انہوں نے بتایا کہ وی پی این کی وائٹ لسٹنگ کا مطلب شہریوں کا ایک ریگولیٹر کے پاس رجسٹر ہونا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ادارہ یا فرد اس پر رجسٹر کر سکتا ہے۔
انہوں نے چین کی مثال دیتے ہوئے کہا ’وہاں سماجی رابطے کی ویب سائٹس بلاک ہیں۔ چین پہنچنے اور رجسٹر ہونے کے بعد ہمیں وی پی این استمعال کرنے کی اجازت دی جاتی ہے تاکہ ہم گھر والوں سے رابطہ کر سکیں۔‘
حفیظ الرحمن نے کہا وائٹ لسٹنگ ایک طویل عمل ہے جسے مکمل کرنے میں میں دو سے تین سال لگ سکتے ہیں۔