اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مفتی راغب حسین نعیمی نے ہفتے کو اس تاثر کو مسترد کر دیا ہے کہ کونسل نے کسی سیاسی جماعت کو سوشل میڈیا سے روکنے کے لیے وی پی این کو ’غیر شرعی‘ قرار دینے کا فیصلہ دیا۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے جمعے کو وی پی این کے استعمال کو ’غیر شرعی‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’انٹرنیٹ یا کسی سافٹ ویئر (وی پی این وغیرہ) کا استعمال، جس سے غیر اخلاقی یا غیر قانونی مواد یا بلاک شدہ ویب سائٹس تک رسائی حاصل کی جائے، شرعی لحاظ سے ناجائز ہے۔‘
چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کے دفتر سے جاری ہونے والی پریس ریلیز میں مزید کہا گیا تھا کہ ’حکومت کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ایسے ذرائع اور ٹیکنالوجیز کے استعمال پر موثر پابندی عائد کی جائے، جو معاشرتی اقدار اور قانون کی پاسداری کو متاثر کرتے ہیں۔‘
اس اعلامیے کے سامنے آنے کے بعد یہ قیاس آرائیاں کی جانے لگیں کہ اس پیش رفت کی وجہ پہلے سے ہی زیر عتاب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے قائدین اور کارکنوں کو سوشل میڈیا خصوصاً ایکس کے استعمال سے روکنا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اردو نے اس معاملے پر رائے جاننے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین علامہ ڈاکٹر راغب نعیمی سے رابطہ کیا، جن کا کہنا تھا: ’یہ تاثر غلط ہے کہ ہم نے کسی ادارے کے کہنے پر کسی سیاسی جماعت کو سوشل میڈیا سے روکنے کے لیے وی پی این کی بندش کی سپورٹ میں اب یہ فیصلہ کیا ہے۔‘
بقول علامہ راغب نعیمی: ’یہ معاملہ 2021 میں لاہور ہائی کورٹ میں ایک کیس کے فیصلے سے شروع ہوا جس میں عدالت نے ہمیں حکم دیا تھا کہ وی پی این کے ذریعے ممنوعہ اور فحش ویب سائٹس کے استعمال کی ممانعت سے متعلق اسلامی تعلیمات کی روشنی میں عوام کو آگاہ کیا جائے، لہذا اسلامی نظریاتی کونسل نے اس پر کام شروع کیا۔‘
چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل نے مزید بتایا: ’گذشتہ سال ہمارے اجلاس میں متفقہ فیصلہ ہوا کہ چار معاملوں میں وی پی این کے استعمال سے خرابی ہو رہی ہے۔ ایک ملک میں مذہبی منافرت پھیلانے، دوسرا توہین مذہب، تیسرا جھوٹی معلومات سے معاشرے میں انتشار پھیلانے اور چوتھا غیر اخلاقی (پورن) ویڈیوز اور فلموں کی بلاک ویب سائیٹس وی پی این کے ذریعے چلانے کا معاملہ سامنے آیا۔‘
علامہ ڈاکٹر راغب نعیمی کے بقول: ’اس معاملے کی چھان بین کے بعد پی ٹی اے کو وی پی این بند کرنے کی سفارش کی گئی کہ ملک میں چلنے والے ہزاروں غیر قانونی اور غیر رجسٹرڈ وی پی این بند کیے جائیں اور جو رجسٹرڈ کر کے چلانے کی اجازت لیں، انہیں بھی صرف مثبت استعمال تک محددو کیا جائے، لہذا پی ٹی اے نے اپنے طور پر جائزہ لینے کے بعد غیر قانونی وی پی این بند کرنا شروع کر دیے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’اس لیے ہم نے اس اقدام کی حمایت میں متفقہ فیصلہ جاری کیا کہ وی پی این کا استعمال غیر شرعی ہے۔‘
رواں سال اگست میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے چیئرمین میجر جنرل (ر) حفیظ الرحمٰن نے سینیٹ کی ایک کمیٹی میں وی پی این کو محدود کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’آن لائن کاروبار کو مدنظر رکھتے ہوئے وی پی این کی وائٹ لسٹنگ کی جا رہی ہے، جس کے بعد ملک میں صرف رجسٹرڈ وی پی این ہی استعمال ہو سکیں گے۔‘
وی پی این کی بندش کا خیال اب ہی کیوں؟
وی پی این کے استعمال کو غیر شرعی قرار دینے کے فیصلے پر سوشل میڈیا صارفین اور مختلف طبقات کی جانب سے تنقید کرتے ہوئے سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اس بندش کا خیال اب کیوں آیا جبکہ کچھ لوگوں نے اس فیصلے کو درست قرار دیا ہے۔
تجزیہ کار وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ ’اسلامی نظریاتی کونسل ہمیشہ سے طاقتور حلقوں کے مزاج کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلے کرتی ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا: ’وی پی این کی بندش کا خیال پی ٹی اے اور اسلامی نظریاتی کونسل کو اب اس لیے آیا کیونکہ طاقتور بادشاہ یہ چاہتے ہیں کہ ملک میں ایک سیاسی جماعت کے سوشل میڈیا کے استعمال کو کم کیا جائے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے ہمیشہ طاقتور حلقوں کے اشاروں پر کام کیا ہے اور کبھی آئین و قانون کو پامال کرنے، بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی یا کسی مارشل لا کے خلاف کوئی فتوی جاری نہیں کیا۔‘
وجاہت مسعود نے مزید کہا: ’وی پی این سے ملک میں بلاک کی گئی ویب سائٹس استعمال کی جاتی ہیں۔ یہ بات غور طلب ہے کہ ہمارے ہاں وہی کتابیں یا ویب سائٹس بلاک ہوتی ہیں، جو حاکم وقت کو پسند نہ ہوں، لہذا فحش فلموں اور ویب سائٹس یا مذہبی منافرت پھیلانے سے روکنے کی آڑ لی جا رہی ہے۔ اصل وجہ یہ ہے کہ عوام پر اصل حکمرانی کے دعوے داروں کو اپنے خلاف ہونے والی تنقید برداشت نہیں ہے، ورنہ فحش ویب سائٹس یا مذہبی منافرت پھیلانے کا سلسلہ تو کسی نہ کسی صورت میں شروع سے جاری ہے۔ وی پی این کا استعمال بھی کئی سالوں سے ہو رہا ہے، پہلے اس کا خیال کیوں نہیں آیا؟‘
دوسری جانب پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے سابق رکن میاں شمس نے وی پی این کی بندش کے فیصلے کو ’درست‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وی پی این کے استعمال کے ذریعے ممنوعہ فحش ویڈیوز سے ہمارے معاشرے میں رشتوں کا تقدس پامال ہو رہا ہے اور نوجوانوں میں بے راہ روی کا رحجان بڑھا ہے۔
میاں شمس نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’وی پی این سے بلاک شدہ دیگر ویب سائٹس کے استعمال سے روکنا چاہے غلط ہو لیکن فحش فلموں اور ویڈیوز کی ویب سائٹس کا وی پی این کے ذریعے استعمال روکنا بہترین اقدام ہے کیونکہ اس قسم کی ویڈیوز سے ہمارے معاشرے میں رشتوں کا تقدس اور احترام ختم ہو رہا ہے، اس لیے دیگر وجوہات اپنی جگہ وی پی این بند کرنے کے لیے یہی ایک وجہ کافی ہے۔‘
بقول میاں شمس: ’ معاشروں میں اقدار ختم ہوجائیں تو نہ معیشت معنی رکھتی ہے اور نہ ہی بنیادی آزادیوں کا کوئی فائدہ ہوتا ہے۔ ہر اقدام سے کسی کو فائدہ ہوتا ہے، کسی کو نقصان، وہ تو برداشت کرنا ہی پڑتا ہے۔‘
وی پی این کی بندش پر وزارت داخلہ اور اسلامی نظریاتی کونسل ایک پیج پر
اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے گذشتہ روز وی پی این کا استعمال غیر شرعی قرار دیا گیا تو وزارت داخلہ نے بھی پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن (پی ٹی اے) کو غیر قانونی وی پی این بند کرنے کے لیے خط لکھ دیا ہے، جس میں کہا گیا کہ وی پی این سے دہشت گرد مالی معاونت حاصل کرتے ہیں، اپنی شناخت اور بات چیت چھپاتے ہیں جبکہ وی پی این کو فحاشی اور توہین آمیز مواد کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، لہذا غیر قانونی وی پی این کو ان وجوہات کی وجہ سے بند کیا جائے۔
پی ٹی اے ذرائع سے میڈیا پر رپورٹ ہوا کہ ملک میں آٹھ لاکھ سے زائد فحش مواد رکھنے والی ویب سائٹس بلاک ہیں اور روزانہ دو کروڑ شہری وی پی این کے ذریعے یہ ویب سائٹس دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس حوالے سے وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ ’وزیر داخلہ محسن نقوی طاقتور حلقوں کے قریب سمجھے جاتے ہیں، لہذا جس طرح اسلامی نظریاتی کونسل کو وی پی این کے غیر شرعی ہونے کا خیال اب آیا ہے، اسی طرح وزارت داخلہ کو بھی اب معلوم ہوا کہ وی پی این کے استعمال سے دہشت گردی میں مدد ملتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’دنیا بھر میں ٹیکنالوجی کا استعمال مثبت یا منفی ہوسکتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کا استعمال ہی روک دیا جائے۔ ریاستوں کے لیے سب سے اہم معاشروں کو تعلیم یافتہ بنانا ہوتا ہے تاکہ شہریوں میں شعور اور اچھے برے کی تمیز پرکھنے کی صلاحیت میں اضافے ہو۔ اس طرف کوئی توجہ نہیں دیتا، بس طاقت کے استعمال سے آسان حل نکال کر ان پر عمل کی کوشش کی جاتی ہے، جس کا کبھی کوئی مستقل فائدہ نہیں ہوتا۔‘
اس بارے میں موقف جاننے کے لیے وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی شزا فاطمہ سے رابطہ کیا گیا لیکن انہوں نے اس حوالے سے کوئی جواب نہیں دیا۔