ریحانہ 43 برس کی ہیں اور مغل پورہ کی سڑکوں پر بے دھڑک رکشہ چلاتی ہیں، لائسینس تو ہے نہیں، خاتون ہونے کی وجہ سے پولیس والے کبھی چھوٹی موٹی غلطی پر پکڑتے بھی نہیں۔ ریحانہ کہتی ہیں ’میں احتیاط سے رکشہ چلاتی ہوں اس لیے ابھی تک تو پولیس والے سلوٹ ہی مارتے ہیں جب پکڑیں گے تب دیکھا جائے گا۔
رکشے میں سکول و کالج کے بچے بچیوں کو لانے لے جانے والی ریحانہ مہینے کے 25 سے 30 ہزار روپے کماتی ہیں اور اکیلے اپنے تین بچوں کا پیٹ پالتی ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے جب ریحانہ کو بتایا کہ پنجاب حکومت لاہور میں خواتین کے لیے مخصوص بسیں چلانے جا رہی ہے جس کو چلانے والی بھی خواتین ہی ہوں گی تو یہ سن کر وہ خاصی پرجوش نظر آئیں۔
ریحانہ رکشہ اور موٹر سائیکل چلا لیتی ہیں مگر گاڑی نہیں اور بس تو بالکل بھی نہیں۔ جب ان سے پوچھا کہ آپ ڈرئیونگ سیکھیں گی؟ تو بولیں ’جو بندہ سائیکل، موٹر سائیکل اور رکشہ چلالے وہ بس کیا ٹرک بھی چلا سکتا ہے اور میں بھی اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے بس چلا لوں گی کوئی مسئلہ ہی نہیں۔‘
پنجاب حکومت لاہور میں خواتین کے لیے مخصوص بسیں چلانے جا رہی ہے جس کی ڈرائیور بھی خواتین ہی ہوں گی۔
وزیر ٹرانسپورٹ جہانزیب خان کھچی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ ایک طرح سے ماڈل پراجیکٹ ہے جسے ہم 2020 میں ابتدائی طور پر لاہور سے شروع کریں گے۔‘
وزیر برائے ٹرانسپورٹ جہانزیب خان کھچی نے بتایا کہ ’ہماری یہ تجویز لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی [ایل۔ٹی۔ سی] کے دائرہ اختیار میں آتی ہیں اور انہوں نے اس پر حکومت کو ایک پریزنٹیشن بھی دی ہے جو ہمیں بہت پسند آئی ہے ہم نے انہیں اجازت دی ہے کہ اس پر مزید کام کریں۔‘
’یہ سروس دراصل ہم سکول، ہائی سکول، کالجز اور یونیورسٹی کی بچیوں کے لیے شروع کرنے جا رہے ہیں تاکہ وہ باعزت اور محفوظ طریقہ سے آ جا سکیں اور اگر یہ پراجیکٹ کامیاب ہو گیا تو اسے ہم عوام کے لیے بھی متعارف کروائیں گے۔‘
بسوں کی تعداد کے حوالے سے جہانزیب خان کھچی نے بتایا کہ حکومت پنجاب نے اس سلسلے میں ہائر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ سے بھی بات کی ہے اور وہ تمام سکول، کالج اور یونیورسٹیوں کے اعداد و شمار ہمیں فراہم کریں گے انہیں کتنی بسوں کی ضرورت ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جہانزیب خان کہتے ہیں کہ ابھی یہ پراجیکٹ ابتدائی مراحل میں ہے مگر ہمیں یقین ہے کہ ہم اسے 2020 میں نافذ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
وزیر برائے ٹرانسپورٹ کا کہنا ہے کہ ان بسوں کا رنگ ’گلابی‘ ہوگا اور حکومت اس میں معمولی سبسڈی دے گی جبکہ اسے آپریٹ نجی کمپنیاں کریں گی۔ اگر لاہور میں یہ کامیاب ہو گیا تو اسے پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی شروع کیا جائے گا۔
دوسری جانب جب انڈپینڈنٹ اردو نے لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی کے ترجمان اور ڈپٹی مینیجر کمیونی کیشن لاہور ناصر حسین سے بات کی تو انہوں نے ایل ٹی سی کے آپریشن ڈپارٹمنٹ سے چیک کر کے ہمیں بتایا کہ ابھی فی الحال ایل ٹی سی کے ساتھ پنجاب حکومت کی کوئی ایسی بات چیت نہیں ہوئی لیکن ہوسکتا ہے کہ کسی اور ڈسٹرکٹ میں ایسے کسی پائلٹ پراجیکٹ پر کام ہو رہا ہو لیکن ایل ٹی سی کو اس حوالے سے کوئی معلومات نہیں ہے۔
ناصر حسین نے بتایا کہ خواتین کے لیے مخصوص پنک بسیں چلانے کا پراجیکٹ کچھ عرصہ پہلے بھی متعارف کروایا گیا تھا جس میں شروع میں تین بسیں چلائی گئیں تھیں مگر وہ پراجیکٹ کوئی خاص کامیاب نہیں ہوا تھا اس لیے ہمیں ایک بس بند کرنی پڑی کیونکہ خرچہ زیادہ ہورہا تھا اور خواتین ان بسوں پر کم بیٹھتی تھیں۔
البتہ ناصر حسین نے یہ ضرور بتایا کہ ایل ٹی سی ڈپارٹمنٹ کی پائپ لائن میں خواتین کے لیے بسیں چلانے کا منصوبہ ہے جس میں یہ بسیں خاص طور پر سکول و کالجز کی بچیوں کے لیے چلائی جائیں گی جس کے حوالے سےسٹی ٹریفک پولیس نے بھی ان سے رابطہ کیا ہے اور کہا ہے کہ چھٹی کے وقت رش بڑھ جاتا ہے اور بچیوں کو بسوں میں جگہ نہیں ملتی جس کے لیے ان کے لیے مخصوس بسیں چلائی جائیں اور ہم اس پر ورکنگ کر رہے ہیں۔
سڑک پر بس ٹرک یا یوں کہیں ہیوی ٹریفک وہیکل چلانے کے لیے ایچ ٹی وی لائسنس لینا پڑتا ہے۔ سی ٹی اور لاہور کیپٹن[ر] لیاقت ملک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ لائسینسنگ برانچ کے اعداد و شمار کے مطابق بسیں چلانے کے لیے لائسینس کسی خاتون کے پاس نہیں۔
2018 اور 2019 میں 7212 خواتین نے ڈرائیونگ لائسینس حاصل کیے جن میں سے 630 خواتین نے کمرشل ڈرائیونگ لائسینس لیے جو کہ مزدا ویگن، پک اپ وین اور رکشہ وغیرہ کے تھے مگر آج تک کسی خاتون نے بس، ٹرک یا کوئی اور بڑی گاڑی چلانے کے لیے لائسینس حاصل کرنے کی درخواست نہیں دی۔ البتہ اگر کوئی خاتون یہ لائسینس لینا چاہے تو وہ ٹیسٹ پاس کر کے یہ لائسینس با آسانی حاصل کر سکتی ہیں۔