انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے صحافی مطیع اللہ جان کے جسمانی ریمانڈ دیے جانے کے فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے جمعے کو معطل کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب وہ جوڈیشل تحویل میں تصور ہوں گے۔
اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت کے جج طاہر عباس سپرا نے جمعرات کو مطیع اللہ جان کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا، جس کے بعد مطیع اللہ جان کی وکیل ایمان مزاری نے جمعے کو جسمانی ریمانڈ کے فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔
ایمان مزاری نے ایک ویڈیو بیان میں کہا تھا کہ ’عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ اس درخواست کو آج ہی سماعت کے لیے فوری مقرر کیا جائے، کیونکہ اگر درخواست پر سماعت تاخیر کا شکار ہوئی تو یہ بے اثر ہو سکتی ہے۔‘
انہوں نے امید ظاہر کی تھی کہ عدالت استدعا قبول کرتے ہوئے درخواست پر آج ہی سماعت کا حکم جاری کرے گی۔
جس کے بعد عدالت نے درخواست منظور کی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس ارباب محمد طاہر نے اس پر سماعت کی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ایڈووکیٹ ریاست علی آزاد، مطیع اللہ جان کے وکلا ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران عدالتی ہدایت پر انسداد دہشت گردی عدالت کا آرڈر پڑھا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایڈوکیٹ ریاست علی آزاد نے ایف آئی آر بھی عدالت کے سامنے پڑھی اور کہا کہ ایف آئی آر میں خرید وفروخت کا کوئی ذکر موجود نہیں جبکہ دوسرے صحافی کا بیان حلفی بھی موجود ہے، اس بنیاد پر یہ کیس جھوٹ پر گھڑی بے بنیاد کہانی ہے۔
سماعت کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے مطیع اللہ جان کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ کا انسداد دہشت گردی عدالت کا فیصلہ معطل کردیا اور کہا کہ مطیع اللہ جان اب جوڈیشل کسٹڈی میں تصور ہوں گے۔
جس کے بعد مطیع اللہ جان کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی گئی۔
صحافی مطیع اللہ جان کے بیٹے کی جانب سے ان کے والد کے ’نامعلوم افراد کی جانب سے اغوا‘ کے بیان کے بعد اسلام آباد پولیس کی ان کے خلاف کاٹی گئی ایف آئی آر منظر عام پر آئی تھی۔
مطیع اللہ جان کے صاحبزادے عبدالرزاق نے اپنے والد کے ایکس اکاؤنٹ سے ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں انہوں نے بتایا کہ ’میرے والد کو بدھ کو رات ساڑھے گیارہ بجے ایک اور صحافی ثاقب بشیر کے ہمراہ نامعلوم افراد، نامعلوم گاڑیوں میں اٹھا کر لے گئے۔‘
مطیع اللہ جان کے بیٹے عبدالرزاق کا کہنا تھا کہ ’لے کر جانے والوں نے اپنا کوئی تعارف نہیں کروایا کہ آیا وہ ہیں کون۔‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’یہ سب ان کی (مطیع اللہ جان) کی اسلام آباد میں احتجاج کی دلیرانہ کوریج کے بعد ہوا ہے۔‘
انہوں نے مطالبہ کیا: ’میرے والد کو فوری چھوڑ دیا جائے اور ان کے گھر والوں کو ان کے بارے میں فوراً آگاہ کیا جائے۔‘
صحافی مطیع اللہ جان کے ’اغوا‘ کے بعد پاکستان کے متعدد صحافیوں اور تنظیموں نے ان کی بازیابی کا مطالبہ کیا تھا۔