12 کارکنان قتل ہوئے، ایف آئی آر وزیر اعظم، وزیر داخلہ و اطلاعات پر کاٹی جائیں: پی ٹی آئی

پشاور میں جمعے کو نیوز کانفرنس کرتے ہوئے شیخ وقاص اکرم کا کہنا تھا کہ ’جان سے جانے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوا رہا ہے تام فی الحال 12 کارکنوں کی اموات کی مکمل تفصیل موجود ہے۔‘

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم 29 نومبر 2024 کو پشاور میں نیوز کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں جو کہ اسلام آباد میں احتجاج کے بعد پہلی کانفرنس ہے (پی ٹی آئی یوٹیوب)

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سیکریٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں احتجاج کے دوران 12 کارکنان قتل کیے گئے اور کئی زخمی ہیں۔

پشاور میں جمعے کو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب کے ہمراہ مشترکہ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے شیخ وقاص اکرم کا کہنا تھا کہ ’جان سے جانے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوا رہا ہے تام فی الحال 12 کارکنوں کی اموات کی مکمل تفصیل موجود ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت حقائق کو چھپانے کی کوشش کرتی رہی ہے جو سچ سامنے لا رہے ہیں انہیں پابند سلاسل کیا جا رہا ہے۔‘

پی ٹی آئی کے رہنما کا کہنا تھا کہ حکومت کا بیان ہے کہ ایک گولی بھی نہیں چلی لیکن  ثبوت اور ویڈیو موجود ہے کہ کتنی گولیاں ماری گئیں، 12 لوگ موقع پر ہی شہید ہوئے جن میں سے سات کا تعلق خیبرپختونخوا، دو کا تعلق بلوچستان سے ہے، پنجاب، آزادکشمیر اور اسلام آباد کا ایک ایک کارکن بھی 26 نومبر کو جان سے گیا۔

شیخ وقاص اکرم نے الزام عائد کیا کہ ’حکومت نے پولی کلینک پر دباؤ ڈالا اور لسٹوں کو غائب کیا، لواحقین کو لاش نہیں دی گئی، ہمارے بہت سے لوگ جو لاپتا ہیں، وہ ان کے پاس ہیں، زخمیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے، اعداد و شمارجمع کیے جا رہے ہیں، میڈیا سے شیئر کریں گے۔‘

انہوں نے جان سے جانے والوں سے متعلق تفصیل بتائے ہوئے کہا کہ ان میں ایبٹ آباد کے مبین ملک اور عبدالقادر، شانگلہ کے طارق خان، مردان کے ملک صدر علی، چارسدہ کے محمد علی، کوٹلی ستیاں کے انیس ستی، اسلام آباد سے محمد الیاس، ڈیرہ غازی خان کے سردار شفیق خان، قلعہ سیف اللہ کے عبدالرشید، پشین کے احمد ولی، خان پور کے عمران عباسی اور چارسدہ کے تاج ولی شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’سردار شفیق کی لاش پمز میں تھی لیکن انتظامیہ نے اس کی وہاں موجودگی سے انکار کر دیا لیکن بعد میں ان کی لاش راولپنڈی کے ایک ہسپتال نے یہ کہہ کر لواحقین کے حوالے کی کہ انہیں حادثہ پیش آیا جن میں ان کی موت ہو گئی۔‘

رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ ’حکومت اموات کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن ایسا نہیں ہو گا۔ ڈیٹا جمع کیا جا رہا ہے جسے میڈیا کے ساتھ شیئر کیا جائے گا۔ ایک صحافی نے پولی کلینک میں مردہ اور زخمی حالت میں لائے گئے مظاہرین کی فہرست شیئر کی لیکن بعد میں حکومت نے ہسپتال انتظامیہ پر دباؤ ڈالا اور کہا کہ یہ وہ فہرست ہی نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کو ڈی چوک میں گولیاں لگنے کے ویڈیو ثبوت موجود ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ بہت سے لوگ لاپتہ ہیں۔ جوں جوں ان کے بارے میں پتہ چلے گا اموات کی تعداد بہت زیادہ ہونے کا خدشہ ہے۔

’یہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ داروں اور 1977 کی پیپلز پارٹی کا ورثہ جو چل رہا ہے۔ حکومت ریاستی مشینری استعمال کر کے اپنے ہی لوگوں کی جان لے رہی ہے۔ علی امین گنڈہ پور پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ ان کی گاڑی کو دائیں بائیں سے ہٹ کیا گیا۔‘

پی ٹی آئی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم کا کہنا تھا کہ ’ملک بھر میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے ساڑھے پانچ ہزار کے قریب لوگ گرفتار ہیں۔ معاملہ عدالت میں لے کر جائیں گے۔‘

’تحریک انصاف پر پابندی کی بلوچستان اسمبلی کی قرارداد حماقتوں میں ایک حماقت کا اضافہ ہے۔ ہم بھی خیبرخوا اسمبلی میں قرارداد لائیں کہ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی پر پابندی لگا دی جائے۔ صوبے میں گورنر راج ایک اور حماقت ہو گی۔‘

عمر ایوب

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمرا یوب کا کہنا ہے کہ ’علی امین گنڈہ پور نے بہادری اور سیاسی بصیرت کے ساتھ قافلوں کی قیادت کی۔ بشریٰ بی بی نے دلیری کا مظاہرہ کیا۔ گولیاں چلنی شروع ہوئیں تو وہ ڈی چوک میں ہی رہیں اور انہوں نے کسی قسم کی تشویش کا اظہار نہیں کیا۔

’ہم فرنٹ لائن ہر کھڑے رہے۔ مجھے بطور اپوزیشن لیڈر ٹارگٹ کیا گیا۔ 25 گز کے فاصلے سے مجھ پر آنسو گیس کا شیل چلایا گیا جس سے مجھے گردن پر زخم آیا۔ ایک شیل چھاتی پر لگا۔ یہ قاتلانہ حملہ تھا جس کے ذمہ دار شہباز شریف، مریم نواز، آئی جی پنجاب اور ڈی پی او اٹک اس کے ذمہ دار ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’چینلز کے مالکان بہادر نہیں۔ میڈیا ان کے لیے کاروبار ہے۔ وہ سچ کی آواز کو دباتے ہیں۔ ان کو کہیں سے کال آتی ہے تو ان کی کانپیں ٹانگ جاتی ہیں۔‘

عمر ایوب کا کہنا تھا کہ ’ڈی چوک کے مظاہرین پر فائرنگ کے لیے امریکی ساختہ اسلحہ استعمال کیا گیا جو پاکستانی سکیورٹی اداروں کو عطیے میں ملا۔ یہاں ہلکی مشین گنز ایم 60 استعمال کی گئیں جو ایک منٹ میں تقریباً ساڑھے سات سو راؤنڈ فائر کرتی ہے۔ اتنی شدید فائرنگ کا مقابلہ کون کر سکتا ہے۔ ان مشین گنوں پر اندھیرے میں دیکھنے والے آلات لگے ہوئے تھے۔ یہ اسلحہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے لیے دیا گیا پرامن مظاہرہن پر گولیاں چلانے کے لیے نہیں۔‘

حکومتی موقف

پاکستان کی وفاقی حکومت پی ٹی آئی کے کارکنان کی اموات کے حوالے سے اس بات کو رد کر چکی ہے کہ ان کی موت سکیورٹی فورسز کے آپریشن کے دوران ہوئی ہے۔

دھ کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کہہ چکے ہیں کہ ’جب وہ بھاگے ہیں، اس وقت سے لاشوں کا پروپیگنڈا شروع کیا گیا ہے کہ 33 لاشیں ایک ہسپتال میں ہیں، ان کے لوگ کل بھی آئے تھے، میں نے کل بھی کہا تھا کہ اگر کوئی ہے تو نام بتا دیں، لیکن یہ نام نہیں بتا سکے۔

’ہر بندے کے ہاتھ میں کیمرا تھا، اگر پولیس گولی چلاتی تو پتا چل جاتا، میں انہیں چلینج کرتا ہوں کہ اگر کوئی بندا ہلاک ہوا ہے تو مجھے بتا دیں۔ اگر کسی کو پتھر لگا ہے تو، پتھر ہمیں بھی لگے ہیں۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ اگر آپ کا کوئی بندہ مرا ہے تو وہ ہمیں بتا دیں۔ ہم کورٹ کو بھی سب بتائیں گے کہ کیا ہوا۔ ہم گذشہ چار دن کی صورت حال کے بارے میں کابینہ کو بھی آگا کریں گے۔‘

وفاقی وزیر داخلہ کئی بار ذرائع ابلاغ سے کہہ چکے ہیں کہ ان کے کسی سکیورٹی اہلکار کے ہاتھ میں اسلحہ نہیں تھا وہ صرف ڈنڈوں سے لیس تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس سب کی ذمہ دار ایک عورت ہے جو لاشیں لینے اسلام آباد آئی ہے لیکن ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔‘

محسن نقوی کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی کے احتجاج میں افغان شہری بھی شامل تھے جن میں سے چند کو گرفتار کرکے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست