حلب حملہ: فراموش جنگ کی طرف دنیا کی توجہ مبذول

اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ بشار الاسد کی ناقابل تسخیر حکومت جیت چکی ہے، اور اب کچھ بھی نہیں بدلے گا۔ بہت کم لوگ بتا سکتے تھے کہ جنگ اب بھی جاری ہے یا نہیں، چہ جائیکہ یہ کہ وہ کس مرحلے میں ہے۔

دو دسمبر 2024 کو شمالی شام کے قصبے تل رفعت میں سیریئن ڈیموکریٹک فورسز ایک ٹینک کا معائنہ کر رہے ہیں (عارف تماوی / اے ایف پی)

دنیا نے سالوں شام کو بھلائے رکھا۔ بہت سے لوگ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ 2011 کے انقلاب کے خونریز خانہ جنگی میں تبدیل ہونے کے بعد شام ناقابل حل مسائل کا شکار ہو چکا ہے۔

بین الاقوامی طاقتوں کی مداخلت نے اس خانہ جنگی کو مزید مشکل بنا دیا۔

اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ بشار الاسد کی ناقابل تسخیر حکومت جیت چکی ہے، اور اب کچھ بھی نہیں بدلے گا۔ بہت کم لوگ بتا سکتے تھے کہ جنگ اب بھی جاری ہے یا نہیں، چہ جائیکہ یہ کہ وہ کس مرحلے میں ہے۔

یہ سب کچھ چند دن پہلے بدل گیا، جب اس مخالف قوتوں کے مختلف گروپس کی ایک حیرت انگیز کارروائی کی کامیابی نے سب کو، یہاں تک کہ خود کارروائی کرنے والوں کو بھی حیرت میں ڈال دیا۔

حکومتی افواج منتشر ہوتی نظر آئیں جب ہزاروں کی تعداد میں اپوزیشن نے شام کے دوسرے بڑے شہر حلب پر دھاوا بولا اور پھر جنوب کی طرف حما کی جانب پیش قدمی جاری رکھی۔ ایسا لگتا ہے کہ اس نے ملک کے مختلف حصوں میں کئی دھڑوں کی طرف سے تحریک اور حملوں کو جنم دیا، اور شمال، جنوب، مشرق اور مغرب میں جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئیں۔

تجزیہ کار مشرق وسطیٰ انسٹی ٹیوٹ (ایم ای آئی)  کے شام پروگرام کے ڈائریکٹر چارلز لسٹر کے مطابق بشار الاسد ماسکو سے جلدی واپس دمشق لوٹے اور کئی گھنٹے مشرق وسطیٰ کی ان حکومتوں کو فون کرتے رہے جو گذشتہ سال ان سے تعلقات معمول پر لائیں۔

تجزیہ کار نے ایکس سابقہ ٹوئٹر پر پوسٹ میں لکھا کہ لڑائی کا سامنا کرنے والے آمر حکمران نے مبینہ طور پر ان سے ’دہشت گردی کے خلاف‘ مدد طلب کی۔

یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا کوئی بشار الاسد کی مدد کو آئے گا یا نہیں۔ لیکن کئی سال میں پہلی بار، ان کی حکومت، جو کاغذی شیر، بدعنوان، شکستہ، اور اپنے حامیوں، روس اور ایران کی بڑی مقروض ہے، بے نقاب ہوگئی ہے۔

یہ کارروائی ترکی کے زیر انتظام شمال مغربی صوبہ ادلب میں موجود درجن سے زائد دھڑوں کے اتحاد نے شروع کی۔ اس کی قیادت حیات تحریر الشام (ایچ ٹی ایس)  کر رہی ہے جو وہ اسلام پسند گروہ ہے جو ماضی میں القاعدہ کے ساتھ منسلک تھا، لیکن کئی سال کے دوران اس نے اپنے جہادی ماضی کی دھندلی شناخت سے دور ہونے کے لیے سخت تگ ودو کی۔

میدان میں موجود شامی صحافیوں نے بتایا کہ اس اتحاد نے حلب، اس کے فوجی اور شہری ہوائی اڈے، اور وہ قصبے جو انقلاب کا گہوارہ تھے، پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے۔ یہ علاقے حلب سے جنوب میں ایک اور بڑے شہر حما کی طرف جانے والی سڑک پر واقع ہیں۔

اندرون ملک نقل مکانی کرنے والے لوگ جو پانچ سال پہلے حکومت کے قبضے کے دوران یہاں سے بھاگنے پر مجبور ہوئے، وہ پہلی بار واپس لوٹ آئے ہیں۔

مشرق میں مزید اطلاعات ہیں کہ کردوں کی زیر قیادت شامی جمہوری افواج  (ایس ڈی ایف) جو بظاہر ملک کے شمال مشرقی حصے کو کنٹرول کرتی ہیں، اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہو رہی ہیں اور وہ رقہ اور دیر الزور میں حکومتی افواج کے خلاف کارروائی کی تیاری کر رہی ہیں۔

جنوب میں، شمال میں اپوزیشن کی تیز رفتار کامیابیوں سے متاثر ہو کر، وہ سابقہ اپوزیشن شخصیات جو حکومت کے ساتھ ’صلح‘ کر چکی تھیں، بھی اٹھ کھڑی ہوئی ہیں۔

لسٹر نے کہا کہ ’ان سابق باغیوں نے دیہی حمص میں حکومت سے قصبے چھین لیے ہیں اور اب وہ صوبائی دارالحکومت کی طرف پیش قدمی کی دھمکی دے رہے ہیں۔ ایسے ہی تصادم شام کے دارالحکومت دمشق اور جنوبی صوبے درعا میں بھی شروع ہو چکے ہیں، جو کبھی انقلاب کا گہوارہ تھا۔‘

اطلاعات کے مطابق درعا میں سابق اپوزیشن دھڑے چھ مختلف قصبوں میں حکومتی افواج سے لڑ رہے ہیں اور حکومتی فوجی اپنے ٹھکانے چھوڑ رہے ہیں۔

لسٹر نے ایکس پر لکھا کہ ’شام کے بحران کو حالیہ برسوں میں بہت سے لوگوں نے ختم شدہ، منجمد، یا غیر متعلقہ قرار دے دیا تھا۔‘

’ہم میں سے جو لوگ خبردار کر رہے تھے کہ صورت حال کتنی نازک ہے اور اسد کی حکومت کتنی کمزور ہوتی جا رہی ہے، انہیں مبالغہ پسند کہا گیا۔ لیکن آخر کار سچائی غالب آتی ہے۔‘

حلب کے صوبے میں صحافی عمر البام جو کئی سال سے ادلب میں داخلی طور پر بے گھر تھے، نے پہلی بار پانچ سال بعد حلب کے قریب معرت النعمان میں اپنے خاندانی گھر واپس جانے کے بارے میں دی انڈپینڈنٹ سے بات کی۔

انہوں نے کہا کہ ان کے پاس جذبات کو بیان کرنے کے لیے ’الفاظ نہیں ہیں۔ حلب میں ہر کوئی حیران ہے۔ ہم نے نہیں سوچا تھا کہ حکومت کو شکست دینے میں صرف تین دن لگیں گے۔‘

لیکن اس بحران کے بیج کافی عرصے سے آہستہ آہستہ پروان چڑھ رہے ہیں۔

ایما بیلز، جو مشرق وسطیٰ انسٹی ٹیوٹ (ایم ای آئی)  کی غیر مقیم فیلو ہیں، وضاحت کرتی ہیں کہ اسد نے کئی سال سے اپنی داخلی حمایت کو کمزور کیا کیونکہ انہوں نے حکومت کرنے کا انداز نہیں بدلا اور پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات معمول پر آنے کے بعد بھی امن کے ثمرات مہیا نہیں کیے۔

انہوں نے بتایا: ’(ان کی حکومت) بدستور استحصالی اور بدعنوان انتظامیہ کے طور پر کام کرتی رہی، غیر قانونی معیشتیں چلاتی رہی اور اپنی دولت کا زیادہ تر حصہ ملک سے باہر منتقل کرتی رہی۔ یہاں ایک شدید معاشی بحران ہے، اور فوجیوں کا حوصلہ پست اور ان کی حمایت نہایت محدود ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے ساتھ ہی اسد کے اہم حمایتی غیر معمولی حالات سے دوچار ہیں۔

روس یوکرین میں مہنگی اور طویل جنگ میں الجھ چکا ہے۔ لبنانی جنگجو گروپ حزب اللہ کو حالیہ اسرائیلی تنازعے میں تباہ کن نقصان اٹھانا پڑا جس میں اس کے اعلیٰ کمانڈرز، بشمول سربراہ حسن نصراللہ، مارے گئے۔ ایران اور اس کی حامی ملیشیائیں بھی غزہ کی جنگ اور اسرائیل کے ساتھ جاری تنازعات کے باعث پسپائی کا شکار ہیں۔ ایران اور حزب اللہ دونوں نے شام میں اپنی مداخلت کو کم کرنے پر مجبور کیا ہے تاکہ اسرائیلی حملوں سے بچا جا سکے۔

بیلز کا مزید کہنا تھا کہ ’مجھے کوئی بیرونی طاقت نظر نہیں آتی جو اسد کی حمایت میں دوبارہ یہ تمام علاقہ واپس لینے میں مدد کر سکے۔ میرے خیال میں تمام فریقین غالباً اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کر رہے ہیں۔‘

دوسری طرف زیادہ تر شامی شہری جن سے میں نے بات کی، اپنے جذبات کے بارے میں کشمکش کا شکار ہیں۔ تبدیلی کی امید، بے گھر افراد کی گھروں کو لوٹنے کی خواہش، سیاسی قیدیوں کی رہائی اور ایسا مستقبل جو آمرانہ حکومت کے کچل دینے والے تسلط سے آزاد ہو، ان میں جوش پیدا کر رہے ہیں۔

لیکن اسی کے ساتھ  ہی ایچ ٹی ایس  کے جہادی ماضی، اس قدر وسیع پیمانے پر قبضے کی غیر مستحکم نوعیت، اور ترک حمایت یافتہ گروپوں اور کرد قیادت والی افواج اور دیگر دھڑوں کے بیچ ممکنہ جنگ کے خدشات پر تشویش بھی پائی جاتی ہے۔

کئی لوگ خوفزدہ ہیں کہ روس پوری قوت کے ساتھ مداخلت کرے گا۔ شام کی تاریخ میں حکومت نے کیمیائی ہتھیار استعمال کیے۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ شام، اور اس کے مظلوم عوام کی حالت، جو طویل عرصے سے دنیا کی نظروں سے اوجھل اور فراموش شدہ ہیں، اب مزید نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر