قوی امکان ہے کہ آصف علی زرداری اتوار کو پاکستان کے 14ویں صدر منتخب ہو جائیں گے۔ انہیں دوسری مرتبہ پاکستان کا صدر منتخب ہونے کا اعزاز مل رہا ہے۔
ان کی شریک حیات محترمہ بےنظیر بھٹو اب اس دنیا میں نہیں ہیں اور انہوں نے کوئی اور شادی بھی نہیں کی اس لیے خاتونِ اوّل کا عہدہ اس بار بھی خالی ہی رہے گا۔
پاکستان جیسے پدر سری سماج میں یہ جاننا تو اہم سمجھا جاتا ہے کہ صدر کون ہے لیکن یہ جاننا کبھی اہم نہیں سمجھا جاتا کہ خاتون اوّل کون ہے؟
پاکستان کے جتنے صدور گزرے ہیں ان میں سے جو شہرت بیگم نصرت بھٹو اور ناہید مرزا کے حصے میں آئی وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آئی۔ دونوں میں قدر مشترک ان کا ایرانی نژاد ہونا بھی ہے۔ نصرت بھٹو کے برعکس ناہید مرزا کے بارے میں بہت سے سوالات اٹھائے جاتے ہیں کہ وہ غیر ملکی ایجنٹ تھیں۔
کیا ناہید مرزا ایرانی ایجنٹ تھیں؟
کئی کتابیں ایسی ہیں جن میں سکندر مرزا کی ناہید کے ساتھ شادی کو ’ہنی ٹریپ‘ لکھا گیا ہے۔ حالانکہ اس حوالے سے آج تک کہیں دستاویزی ثبوت نہیں ملتا کہ ناہید مرزا کو اگر ایرانی انٹیلی جنس نے استعمال کیا تھا تو اس سے ایران کیا فائدہ حاصل کرنا چاہتا تھا۔
محترمہ فاطمہ جناح اور ایوب خان میں اور کوئی قدر مشترک تھی یا نہیں لیکن اس بات پر دونوں کا اتفاق تھا کہ ناہید مرزا غیر ملکی ایجنٹ ہیں۔
یہ جنوری 1954 کا ایک واقعہ ہے جس کی راوی کے ایچ خورشید کی اہلیہ ثریا خورشید ہیں۔ یہ وہی کے ایچ خورشید ہیں جو قائد اعظم کے بعد محترمہ فاطمہ جناح کے بھی سیکریٹری رہے۔
فاطمہ جناح کے حوالے سے اپنی یادداشتوں کی کتاب ’فاطمہ جناح کے شب و روز‘ میں وہ لکھتی ہیں کہ مسلم لیگ کے صدر سردار عبد الرّب نشتر محترمہ سے ملنے آئے اور کہا کہ سکندر مرزا صدر تو منتخب ہو گئے ہیں لیکن وہ ان سے مطمئن نہیں ہیں۔
اس پر محترمہ نے کہا کہ ’میں سکندر مرزا کو ذاتی طور پر جانتی ہوں وہ ایک ابن الوقت اور خوشامدی آدمی ہے، ساری زندگی اس نے ملازمت میں گزاری ہے عوامی عہدوں کے لیے ایسا شخص موزوں نہیں ہوتا، پھر اس کی بیوی ناہید مرزا کا بھی اس پر بہت اثر ہے۔ وہ عورت تو مجھے کوئی غیر ملکی ایجنٹ معلوم ہوتی ہے سکندر مرزا اس کی گرفت میں ہے اور اسی کی عقل سے سوچتا ہے۔‘
سکندر مرزا کے بیٹے ہمایوں مرزا نے 1999 میں نیویارک سے چھپنے والی اپنی کتاب From Plassey to Pakistan میں لکھا ہے کہ ’میر جعفر کے پوتے سکندر مرزا اگر ایک ایرانی خاتون ناہید سے شادی نہ کرتے تو انہیں ایوانِ صدر سے نہ نکالا جاتا۔ کیونکہ فوجی آمر کا خیال تھا کہ غیر ملکی سفارتی اہلکار کی بیوی سے شادی کر کے سکندر مرزا نے اس ضابطے کو خود ہی توڑ دیا تھا جو انہوں نے اس وقت بنایا تھا جب وہ پاکستان کے طاقت ور سیکریٹری دفاع تھے۔ اس شادی کی وجہ سے فوج کے جوانوں اور افسروں میں ان کی ساکھ مجروح ہوئی تھی۔ اسی کو بنیاد بنا کر ایوب نے پاکستان کے پہلے صدر کا تختہ الٹ کر مارشل لا لگایا تھا اور انہیں ملک بدر کر دیا تھا۔‘
’مجھ سے شادی کرو گی؟‘ سکندر مرزا پہلی ملاقات میں دل ہار بیٹھے
بیگم ناہید سکندر مرزا آخر کون تھیں اور ان کی شادی سکندر مرزا سے کیسے ہوئی؟ یہ جاننے سے پہلے یہ جان لیں کہ ناہید مرزا کوئی عام خاتون ہرگز نہیں تھیں بلکہ ان کا تعلق مشہور فاتح امیر تیمور کے خاندان سے تھا۔
ان کے والد باپ ایران کے صوبے خراسان کا بااثر جاگیردار تھے جو مسلسل 13 بار ایران کا پارلیمنٹری ڈپٹی منتخب چکا تھا۔ وہ ایران کے وزیراعظم محمد مصدق کی کابینہ میں پہلے افرادی قوت اور بعد میں داخلہ امور کا وزیر بھی رہے۔
ناہید مرزا کی والدہ ایران قجار کے بادشاہ فتح علی شاہ قجار کی تیسری پشت سے تھیں۔ ان کے بھائی بھی ایران کا سینیئر سفارت کار رہے جن کو دہلی اور ماسکو کے علاوہ لندن میں بھی شاہ کا آخری سفیر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
ناہید مرزا کی شادی نوجوانی میں ہی ایک کرنل مہدی افخامی سے ہو گئی۔ افخامی کا باپ اور چچا دونوں فوج میں جرنیل تھے اور افخامی کے بارے میں بھی خیال تھا کہ وہ بھی ترقی کی منازل جلد طے کرے گا۔ 1951 میں کرنل افخامی کی تقرری کراچی میں ایرانی سفارت خانے میں بطور فوجی اتاشی ہوئی۔
کراچی میں روسی سفارت خانے کی ایک تقریب میں سکندر مرزا کی پہلی ملاقات ناہید افخامی سے ہوئی جب وہ سیکریٹری دفاع تھے۔ ناہید افخامی کی عمر اس وقت لگ بھگ 30 سال اور سکندر مرزا کی 52 سال تھی۔
سکندر مرزا چھ بچوں کے باپ اور ناہید ایک بیٹی کی ماں تھیں۔ سکندر مرزا مہمانوں سے ہاتھ ملاتے ہوئے اچانک ناہید افخامی کے پاس آ کر رک گئے ان کی آنکھوں میں نجانے انہیں کیا نظر آیا کہ انہوں نے فوراً ناہید کو کہہ دیا، ’تم مجھ سے شادی کرو گی؟‘
ناہید جانتی تھیں کہ سکندر مرزا سیکرٹری دفاع ہیں اور وہ ایک دوسرے ملک کے فوجی اتاشی کی بیوی ہیں۔ ان دونوں میں اگر کوئی چیز قدر مشترک تھی تو وہ صرف یہ تھی کہ ناہید مرزا کی طرح سکندر مرزا بھی اعلیٰ حسب نسب رکھتے تھے ان کے آبا و اجداد میں سے سید زین العابدین نجفی مغل دور میں عراق سے ہندوستان آئے تھے وہ حضرت علی کے روزہ مبارک نجف اشرف کے کلید بردار تھے۔
یہی وجہ تھی مغل دربار نے نہ صرف انہیں خوش آمدید کہا بلکہ انہیں بنگال، بہار اور اڑیسہ کا نواب بھی بنا دیا۔ آنے والی کئی نسلوں تک ان کا یہ عہدہ برقرار رہا۔ مرشد آباد ان کی راجدھانی تھا۔
ناہید مرزا بطور خاتون اوّل
ناہید اور سکندر مرزا نے عمر کے اتنے بڑے فرق کے باوجود محبت کی سیڑھیاں جلد طے کر لیں۔ کرنل افخامی سے طلاق لے کر ناہید نے دسمبر 1952 میں سکندر مرزا سے لندن میں خفیہ شادی کر لی۔
ناہید کی بیٹی لندن میں زیر تعلیم تھی اس لیے ناہید کا خیال تھا کہ باقی زندگی لندن میں ہی گزاری جائے۔ سکندر مرزا اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کے لیے پاکستان تو آ گئے مگر واپس نہیں جا سکے۔ یہاں حالات ہی ایسے بنے کہ انہیں جنوری 1954 میں مشرقی پاکستان کا گورنر لگا دیا گیا۔
ستمبر 1954 میں گورنر جنرل غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی کو برطرف کر دیا جس کے بعد نئی بننے والی حکومت میں سکندر مرزا کو وزیرِ داخلہ اور جنرل ایوب کو وزیرِ دفاع لگا دیا گیا۔
جب گورنر جنرل غلام محمد اپنے علاج کے لیے لندن گئے تو سکندر مرزا قائم مقام گورنر جنرل بن گئے اور پھر انہوں نے غلام محمد کو برطرف کر کے خود ہی یہ عہدہ سنبھال لیا۔ جب 1956 کی اسمبلی نے پاکستان کو اسلامی جمہوریہ قرار دیا تو اسی اسمبلی نے متفقہ طور پر سکندر مرزا کو پہلا صدر منتخب کر لیا۔
ناہید مرزا خاتون اوّل کی حیثیت سے ان کے ساتھ رہیں۔ ایران، ترکی، سپین اور پرتگال کے سرکاری دوروں پر بھی گئیں۔ اسی دور میں روسی اور چینی رہنماؤں نے بھی پاکستان کا دورہ کیا۔
پاکستان کی افسر شاہی میں ناہید مرزا کو ایرانی ہونے کی وجہ سے ہمیشہ شک کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا، لیکن بیگم رعنا لیاقت علی ہمیشہ ان کی اخلاقی مدد کے لیے موجود ہوتیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ناہید مرزا نے خاتونِ اوّل کی حیثیت سے نابینہ بچوں کے لیے ٹرسٹ قائم کیا اور خصوصی سینٹر بنائے۔ انہی کی کوششوں سے پاکستان میں سرکاری سطح پر پہلا یتیم خانہ ’کاشانہ‘ قائم کیا گیا۔
ایوانِ صدر میں صرف 18 ماہ گزارنے کے بعد اکتوبر 1958 میں صدر ایوب نے پہلے سکندر مرزا سے مارشل لا لگوایا اور بعد میں ان سے استعفیٰ لے کر انہیں ملک بدر کر دیا۔
سکندر مرزا کو تہران میں کیوں دفن کیا گیا؟
سکندر مرزا کو دل کا پہلا دورہ اس وقت پڑا تھا جب صرف 15 منٹ کے نوٹس پر انہیں جنرل ایوب نے ملک بدر کر دیا تھا۔
سکندر مرزا کے پاس مالی وسائل نہیں تھے۔ ان کی پینشن صرف تین ہزار پاؤنڈ سالانہ تھی اس لیے گزر اوقات کے لیے انہیں لندن کے ایک ہوٹل میں مینیجر کی نوکری کرنا پڑی۔
لندن میں اگلے دس سال انہوں نے کسمپرسی میں گزارے اور جب وہ مرے تو ان کے بینک میں صرف 128 پاؤنڈ موجود تھے۔
ایک بار لندن میں ان سے فیلڈ مارشل جنرل اچن لیک، جو آزادی کے وقت پاکستان اور انڈیا کے سپریم کمانڈر تھے، ملنے کے لیے آئے۔ باتوں باتوں میں انہوں نے کہا کہ ’میں نے برما میں جاپانیوں اور مشرق وسطیٰ میں جرمنی کے خلاف جنگیں جیتی ہیں جس پر مجھے فیلڈ مارشل کا اعزاز ملا۔ یہ جنرل ایوب نے کون سی جنگ جیتی ہے جو انہوں نے فیلڈ مارشل کے بیج لگا لیے ہیں؟‘
جس پر سکندر مرزا نے ہنستے ہوئے کہا کہ انہوں نے مجھ سے جنگ جیتی ہے۔
سکندر مرزا پاکستان آنا چاہتے تھے تاکہ اپنے آخری ایام پاکستان میں ہی گزاریں۔ اس مقصد کے لیے ان کی بیٹی نے جنرل یحیٰ سے بات بھی کی تھی۔ یحیٰ نے آمادگی ظاہر کر دی لیکن جب سکندر مرزا نے بیٹی سے کہا کہ وہ جنرل یحی ٰ سے تحریری اجازت نامہ حاصل کریں۔ جنرل یحیٰ کے سٹاف افسر جنرل پیزادہ نے تحریری جواب دیا کہ انہیں پاکستان آنے کی اجازت نہیں ہے۔ جس پر وہ بہت رنجیدہ ہوئے۔
انہی حالات میں 1969 میں انہیں لندن میں دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ جنرل یحیٰ نے سکندر مرزا کی پاکستان میں تدفین کی اجازت بھی نہیں دی۔
اردشیر زیدی جو ایران کے وزیر خارجہ تھے وہ بیگم ناہید مرزا کے دوست تھے ان کی کوششوں سے شاہ ایران نے سکندر مرزا کی ایران میں تدفین کی اجازت دی۔ شاہ نے اپنا خصوصی جہاز لندن بھجوایا جو سکندر مرزا کے بچوں اور دوسری بیوی کو لے کر ایران آیا جہاں پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ انہیں دفن کیا گیا۔
حافظ کی حافظہ اور محبت نامے جو ابھی تک سر بمہر ہیں :
سکندر مرزا نے شادی سے پہلے ناہید کو جو خطوط لکھے تھے وہ سکندر مرزا کے پاس تھے لیکن پاکستان سے اچانک انخلا کی وجہ سے وہ اپنی کوئی چیز ساتھ لے کر نہیں جا سکے۔ سکندر مرزا کے انتقال کے بعد ناہید مرزا تقریباً 50 سال زندہ رہیں۔
انہیں اگر کسی چیز کی تمنا تھی تو وہ محبت نامے تھے جو سکندر مرزا نے انہیں شادی سے پہلے لکھے تھے۔ اس لیے وہ چاہتی تھیں کہ وہ انہیں واپس مل جائیںٹ اس کے لیے انہوں نے کوشش بھی کی۔ انہیں بتایا گیا کہ صدر ایوب نے سکندر مرزا کی تمام دستاویزات ضائع کر دی تھیں۔
بینظیر بھٹو کی وزارت عظمی کے دور میں نصرت بھٹو نے انہیں دورۂ پاکستان کی دعوت دی چونکہ دونوں ایرانی نژاد تھیں ذوالفقار علی بھٹو کو سیاست میں بھی سکندر مرزا لے کر آئے تھے اس لیے دونوں میں دوستی بھی تھی۔
ناہید مرزا اپنے دورے میں کراچی، لاہور اور پشاور گئیں۔ انہیں اصل دلچسپی سکندر مرزا کے خطوط میں تھی۔ پاکستان میں انہیں جب وہ خطوط دیے گئے تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا لیکن جس خط کو انہوں نے اندر سے کھولا وہ خالی نکلا۔ صرف لفافے تھے۔ جن کے باہر لکھا ہوا تھا:
’صرف تمہارا، جب تک سانسیں ہیں‘
ناہید کے لندن والے فلیٹ میں ہر طرف سکندر مرزا کی تصاویر لگی ہوئی تھیں۔ انہیں کلاسیکی فارسی شعرا سے بہت رغبت تھی۔
حافظ کا تمام کلام انہیں زبانی یاد تھا وہ اکثر حافظ کی شاعری گنگناتی رہتیں۔ انہوں نے خود بھی فارسی میں شعر لکھے۔ لندن میں ان کے گھر ایک ہجوم رہتا تھا۔ ہر کوئی ان کے کھانوں اور گفتگو کا دلدادہ تھا۔
ناہید مرزا کے دل میں پاکستان اور ایران دونوں بستے تھے اور آخرکار دونوں ملکوں کی محبت دل میں لیے وہ لندن میں 2019 میں اس وقت انتقال کر گئیں جب ان کی عمر سو سال پورے ہونے میں صرف دو ہفتے باقی تھے۔
ناہید مرزا نے خود اپنی سرگزشت نہیں لکھی۔ اس لیے ان سے منسوب بہت سے سوالات ابھی تک جواب طلب ہیں۔ پاکستان کی سرکاری دستاویزات بھی اس حوالے سے ابھی تک سر بمہر ہیں۔ کم از کم وہ محبت نامے ہی عام کر دیے جائیں جو سکندر مرزا نے انہیں لکھے تھے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔