بنگلہ دیش میں جن طلبہ نے گذشتہ سال موسم گرما میں سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ کی حکومت گرانے کے لیے عوامی تحریک کی قیادت کی تھے نے ایک نئی جماعت نیشنل سٹیزن پارٹی قائم کرتے ہوئے سیاست میں قدم رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
نئی سیاسی جماعت کے کا مقصد سخت منقسم خاندانی سیاست کے منظرنامے میں ایک نیا سیاسی پلیٹ فارم قائم کرنا ہے۔
دہائیوں سے بنگلہ دیش کی سیاست دو سابق وزرائے اعظم اور سخت حریفوں یعنی شیخ حسینہ اور خالدہ ضیا کے درمیان گھومتی رہی ہے۔
سیاسی جماعت قائم کرنے کا اعلان جمعے کو دارالحکومت ڈھاکہ میں پارلیمنٹ کے سامنے ہونے والے جلسے میں کیا گیا، جہاں سیاسی اصلاحات کا وعدہ بھی کیا گیا۔
یہ اصلاحات اس ملک کے لیے تجویز کی جا رہی ہیں جو 1971 میں پاکستان کے خلاف ایک خونریز جنگ کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا۔
ہزاروں افراد، جن میں زیادہ تر نوجوان شامل تھے، اس تاریخی لمحے کو دیکھنے کے لیے جمع ہوئے۔
نوبل انعام یافتہ محمد یونس، جو عبوری حکومت کے سربراہ ہیں، ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ نئی جماعت محض ایک ’کنگز پارٹی‘ ہے جو ان کی سرپرستی میں بنائی گئی۔
تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ یہ نیا پلیٹ فارم جنوبی ایشیائی ملک میں عشروں سے قائم روایتی سیاسی طاقت کے ڈھانچے کو توڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
وہ کون ہیں؟
نئی جماعت کا نام جاتیہ ناگرک پارٹی یا نیشنل سٹیزن پارٹی رکھا گیا ہے۔ 26سالہ نمایاں طلبہ رہنما، ناہید اسلام کو پارٹی کا سربراہ نامزد کیا گیا ہے۔
بنگلہ دیشی میڈیا کے مطابق نو دیگر لوگوں کو بھی پارٹی کے بڑے عہدوں کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔ یہ تمام وہی طلبہ رہنما ہیں جو جولائی اور اگست میں ہونے والی عوامی تحریک کے دوران نمایاں ہوئے۔
پارٹی کے قیام کے موقع پر 151 رکنی کمیٹی کا اعلان کیا گیا۔ حامیوں کا کہنا ہے کہ ملک میں اقربا پروری کی سیاست ختم کرنے، بدعنوانی سے نمٹنے اور جمہوری اقدار کے فقدان کو دور کرنے کے لیے ایک نئی جماعت کی ضرورت ہے۔
پارٹی کا مشن کیا ہے؟
ناہید اسلام نے اعلان کیا کہ جماعت کا مشن ’آئینی آمریت کا خاتمہ اور نئے جمہوری آئین کا نفاذ‘ ہے۔
انہوں نے منشور پڑھتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں ہر طرح کی آئینی آمریت کی بحالی کے امکانات کو ختم کرنا ہوگا۔ اب وقت ہے نئی امید کا، آگے بڑھنے کا، اور ایک نیا بنگلہ دیش بنانے کا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ عوامی تحریک محض ایک حکومت گرانے کے لیے نہیں تھی بلکہ پورے سیاسی ڈھانچے کو ازسر نو تشکیل دینے کے لیے تھی۔
اسلام نے زور دے کر کہا کہ نئی پارٹی اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ ’ایسی سیاسی ثقافت کو فروغ دیا جائے جہاں اتحاد تقسیم پر غالب آئے۔ انصاف انتقام کی جگہ لے اور اہلیت خاندانی سیاست پر فتح حاصل کرے۔‘
افتتاحی تقریب میں کن شخصیات کو مدعو کیا گیا؟
منتظمین کے مطابق انہوں نے محمد یونس، ان کی عبوری حکومت کے دیگر مشیروں، مختلف سیاسی جماعتوں کے سربراہوں، بشمول خالدہ ضیا کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اور دیگر رہنماؤں کو دعوت دی۔
تاہم شیخ حسینہ کی عوامی لیگ پارٹی اور اس کے 13 سابقہ اتحادیوں کو تقریب میں مدعو نہیں کیا گیا۔
محمد یونس یا ان کی عبوری کابینہ کے کسی بھی مشیر نے تقریب میں شرکت نہیں کی۔
تقریب میں غیر ملکی سفارت کاروں کو بھی مدعو کیا گیا لیکن انڈیا اور دیگر بڑی عالمی طاقتوں کے سفارت کاروں کو ریلی میں نہیں دیکھا گیا۔