پاکستان کے وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری کا کہنا ہے کہ اگلے برس مارچ تک روس سے ایک مال بردار ٹرین چلانے کی آزمائش کی جائے گی جو آذربائیجان اور ایران کے راستے پاکستان آئے گی۔
روسی ٹیلی ویژن رشیا ٹوڈے کو دیے جانے والے انٹرویو میں پاکستانی وزیر توانائی اویس احمد خان لغاری کا کہنا تھا کہ ’مغرب سے شمال کی جانب چلائی جانے والی اس آزمائشی ٹرین سے لاجسٹکس اور مختلف اشیا پاکستان لائی جائیں گی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پاکستان اور روس کے درمیان انسانی وسائل کے تربیتی پروگرام کو وسعت دینے، چینی اداروں کے نئی سٹیل بنانے کے تکنیکی اور مالیاتی امکانات کا جائزہ لینے پر بات کی جا رہی ہے جو سوویت یونین کے دور میں پاکستانی میں بنائی گئی تھی اور اب اس نے اپنی زندگی پوری کر لی ہے اور ہم پاکستان اور روس کے درمیان فضائی سروس شروع کرنے پر بھی غور کر رہے ہیں جس سے فضائی سفر آسان ہوگا اور دونوں ممالک کے لوگ آپس میں ایک دوسرے سے ملیں گے اور کاروبار مواقع تلاش کر سکیں گے۔‘
ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر نے بتایا کہ ’عنقریب شہری ہوابازی کے ماہرین آپس میں رابطے کریں گے اور اس معاملے کو آگے لے کر چلیں گے لیکن اہم بات یہ ہے کہ دونوں اطراف اس کی جستجو کافی ہے۔‘
یہ پیش رفت کس چیز کی علامت ہے؟
اس سوال کے جواب میں اویس لغاری کا کہنا تھا کہ ’اس سے کاروبار میں آسانی ہوگی، دو بدو رابطہ کاری آسان ہوگی، دونوں جانب کے شہری ایک دوسرے سے ملیں گے، کھیلوں کو فروغ ملے گا، اس کے سیاسی اور معاشی پہلو بھی ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان کچھ عرصے کے دوران نہیں دیکھے گیے تھے۔‘
برکس میں شمولیت
برکس ممالک کے اتحاد میں شامل ہونے کے سوال کے جواب میں پاکستانی وزیر کا کہنا تھا کہ اس میں شمولیت کے لیے پاکستان کو روس اور چین کی حمایت حاصل ہے البتہ شاید ایک ملک ’اس پر زیادہ خوش نہ ہو‘ اور پاکستان برکس میں شمولیت پر بہت زیادہ حصہ ڈال سکتا ہے۔
’پاکستان برکس میں شامل ہوکر کافی معاشی اور تجارتی تعاون حاصل کرسکتا ہے اور ان ہی شعبوں میں ممبر ممالک کو بہت سے فوائد پہنچا سکتا ہے۔‘
چیلنجز کیا ہیں؟
روس کے ساتھ تعاون میں چیلنجز کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اویس لغاری کا کہنا تھا کہ پاکستانی تاجروں کو امریکی اور چینی مارکیٹوں کا روسی مارکیٹ کے مقابلے میں زیادہ اندازہ ہے لہذا فی الحال سب بڑا چیلنج یہ ہے کہ دونوں ممالک کے لوگ اور تاجر ایک دوسرے کو جانیں پہچانیں۔
مغرب کی جانب سے دباؤ ہے؟
پاکستان کی روس سے قربت بڑھنے پر مغرب سے دباؤ کے تحفظات کےبارے میں سوال کے جواب میں پاکستان کے وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری کا کہنا تھا کہ ’ایسا نہیں ہونا چاہیے اور جیسے ہم تعلقات آگے بڑھا رہے ہیں ہم دنیا کو بتا رہے ہیں کہ یہ کسی کے خلاف یا حمایت میں نہیں بلکہ ہمارے اپنے مفاد میں ہیں اور اس حد تک ہیں جہاں تک ہمارے مفادات مشترکہ ہوں۔‘
مغربی پابندیوں سے فرق پڑے گا؟
کیا مغرب کی پابندیوں کا روس اور پاکستان کے تعلقات پر فرق پڑنے کے سوال پر اویس لغاری کا کہنا تھا کہ ’ہاں ہم اس طرح تجارت اور معیشت میں تعاون نہیں کر پا رہے جس طرح ہم کر سکتے ہیں۔‘
روس، پاکستان کے درمیان جوہری توانائی پر تعاون
جوہری توانائی کے شعبے میں تعاون کے سوال پر وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ’اس بارے میں ابھی تک کوئی بات نہیں ہوئی ہے، جوہری توانائی کی پیداوار کا ہماری کل پیداوار میں بڑا حصہ ہے جو کلین اور افیشنٹ ہے، آئی جی سی کی سطح پر دونوں ممالک کے ورکنگ گروپ جب بھی اس بارے میں دلچسپی ظاہر کی گئی چاہے ہماری جانب سے یا پھر روس کی جانب سے تو اس پر بات ہو سکتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
روس کے سرکاری خبر رساں ادارے تاس کے مطابق روس کے نائب وزیر توانائی رومن مارشاوین کا کہنا ہے کہ روس اور پاکستان نے رواں ہفتے ماسکو میں ہونے والی بین الحکومتی اجلاس میں تیل اور گیس کی سمندر میں تلاش اور ریفائننگ پر تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق بات چیت میں روس کی جانب سے پاکستان کو خام تیل اور اناج کی فراہمی کے امکانات کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔
نائب وزیر نے کہا کہ ’گذشتہ روز ہمیں آف شور تیل اور گیس کی تلاش، تیل کی وصولی بڑھانے اور تیل صاف کرنے کے شعبے میں پاکستان کی طرف سے ایک دلچسپ تجاویز موصول ہوئی ہیں۔‘
تاس کے مطابق مارشاوین نے کہا کہ ’ہم خوراک اور زرعی مصنوعات برآمد کرتے ہیں، (اور) اناج کی سپلائی دوبارہ شروع ہونے کی توقع رکھتے ہیں۔ ہم پاکستان کو روسی ساختہ معدنی کھادوں کی برآمدات میں اضافے کا مثبت اندازہ لگاتے ہیں جو اس سال سامنے آئی ہے۔‘
ماسکو اور اسلام آباد حالیہ ملاقاتوں کے دوران خام تیل کی فراہمی کے طویل مدتی سودوں پر بات چیت کرتے رہے ہیں۔ روس نے 2022 میں پاکستان کو تیل کی باقاعدہ سپلائی شروع کی کیونکہ ماسکو کی توانائی کی سپلائی پر یورپی یونین کی پابندی نے اسے اپنے ایندھن کے لیے نئے خریدار تلاش کرنے پر مجبور کیا۔
اس سے قبل پاکستان کے وزیر پٹرولیم مصدق ملک نے کہا تھا کہ ان کی حکومت نے روس کے ساتھ خام تیل کی سپلائی پر بات چیت دوبارہ شروع کر دی ہے، حالانکہ انہوں نے مقامی میڈیا کی ان خبروں کی تردید کی تھی کہ پاکستان جنوری سے ہر ماہ روس سے خام تیل کا ایک کارگو درآمد کرنے کا معاہدہ بند کر رہا ہے۔