پاکستانی دورے پر آئیں روسی رہنما ویلنٹینا کتنی اہم ہیں؟

روس میں فیڈریشن کونسل کا سپیکر (چیئرمین) روسی فیڈریشن میں صدر اور وزیر اعظم کے بعد تیسرا سب سے بڑا عہدہ ہے۔

روسی فیڈریشن کونسل کی اسپیکر ویلنٹینا متوینکو 25 ستمبر 2024 کو ماسکو میں کریملین میں صدر اور ترکی کے پارلیمنٹ سپیکر کے ساتھ ایک ملاقات میں شرکت کر رہی ہیں (اے ایف پی)

روس کی فیڈرل اسمبلی کی سپیکر ویلنٹینا میٹ می لینکو آج کل اسلام آباد کے دورے پر ہیں۔ ویلنٹینا متوینکو کو اگر روس کی انتہائی بااثر اور مضبوط خاتون سیاست دان اور سفارت کار کہا جائے تو شاید غلط نہیں ہوگا۔

روس کی فیڈرل اسمبلی یا پاکستانی تشریح میں اسے ایوان بالا یا سینٹ بھی کہا جاسکتا ہے۔ ویلنٹینا 2011 سے اس فورم کی سربراہ ہیں اور صدر ویلادی میر پوتن کا اعتماد رکھتی ہیں۔ اس سے قبل وہ اپنے آبائی علاقے سینٹ پیٹرزبرگ کی 2003 سے 2011 تک سربراہ رہیں ہیں۔

روس میں فیڈریشن کونسل کا سپیکر (چیئرمین) روسی فیڈریشن میں صدر اور وزیر اعظم کے بعد تیسرا سب سے بڑا عہدہ ہے۔ صدر اور وزیر اعظم کی عدم دستیابی کی صورت میں، فیڈریشن کونسل کا چیئرپرسن روسی فیڈریشن کا قائم مقام صدر بن جاتا ہے۔

روسی رہنما نے اسلام آباد میں اپنے قیام کے دوران صدر آصف علی زرداری سمیت اعلی حکومتی اہلکاروں سے دو طرفہ تعاون بڑھانے پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ اس موقع پر صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ پاکستان اور روس کے درمیان تعلقات باہمی احترام، مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعاون بڑھانے کے مشترکہ عزم پر مبنی ہیں۔ 

صدر نے کہا کہ دونوں ممالک میں اقتصادی تعاون بڑھانے کے بے پناہ امکانات ہیں اور پاکستان میں روس کی جانب سے سرمایہ کاری بڑھانے کی ضرورت ہے۔ فریقین نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو، نارتھ ساؤتھ ٹرانسپورٹ کوریڈور کے ذریعے علاقائی روابط، تجارتی تعلقات، اقتصادی تعاون بڑھانے کی اہمیت پر زور دیا۔

اس موقع پر ویلنٹینا نے کہا کہ روس پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو ترجیح دیتا ہے، امید ہے کہ دونوں ممالک کی پارلیمان کے درمیان مفاہمت کی یادداشت پر دستخط سے دوطرفہ تعلقات مزید گہرے ہوں گے۔ یہ ان کا پاکستان کا دوسرا دورہ ہے۔

مغربی یوکرین میں پیدا ہونے والی ویلنٹینا نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز 1980 کی دہائی میں لینن گراڈ (اب سینٹ پیٹرزبرگ) میں کیا تھا اور 1984 سے 1986 تک شہر کی کراسنوگوارڈیسکی ڈسٹرکٹ کمیونسٹ پارٹی کی فرسٹ سیکرٹری بنیں۔

1990 کی دہائی میں ویلنٹینا نے مالٹا (1991–1995) اور یونان (1997–1998) میں روسی سفیر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔ 1998 سے 2003 تک، وہ نائب وزیر اعظم برائے بہبود تھیں اور 2003 میں شمال مغربی وفاقی ضلع میں مختصر طور پر صدارتی ایلچی بھی بنیں۔ یہ وہ وقت تھا جب وہ روسی صدر ولادی میر پوتن کی مضبوط اتحادی بنیں تھیں۔ اس اتحاد نے انہیں پوتن کے آبائی شہر سینٹ پیٹرزبرگ میں گورنر کے انتخابات میں کامیابی دلائی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سینٹ پیٹرزبرگ کی 2003 میں گورنر بننے پر انہیں صدر پوتن نے مبارک باد کے ایک پیغام میں ان الفاظ میں یاد کیا تھا: ’ووٹرز نے آپ کو شمالی دارالحکومت کی تقدیر، بے مثال خوبصورتی اور بھرپور اور بہادر تاریخ کے شہر کی ذمہ داری سونپی ہے۔ سینٹ پیٹرزبرگ کی ترقی کے پروگرام پر عمل درآمد کا مطلب سینٹ پیٹرزبرگرز کی توقعات پر پورا اترنا ہے۔‘

اس وقت کی روسی فیڈیشن کے سربراہ سرگئی میرونوف نے اس موقع پر کہا تھا کہ ’جب میں آپ کی سوانح عمر دیکھتا ہوں تو مجھے ہمیشہ یاد آتا ہے کہ آپ واحد خاتون نائب وزیر اعظم، واحد خواتین کی صدارتی نمائندہ تھیں اور اب آپ کسی علاقے کی سربراہی کرنے والی واحد خاتون ہیں۔‘

جو اہم ہو اسے خطرہ بھی ضرور رہتا ہے۔ 19  مئی 2007 کو ، روسی فیڈریشن کی فیڈرل سکیورٹی سروس نے اعلان کیا کہ اس نے 16 مئی کو ایک نامعلوم نوجوان مذہبی گروپ کے متعدد ارکان کو حراست میں لیا ہے جو مبینہ طور پر دستی بموں اور پلاسٹک دھماکہ خیز مواد کا استعمال کرتے ہوئے ویلنٹینا پر قاتلانہ حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔

کریمیا سٹیٹس ریفرنڈم میں ان کے کردار کی وجہ سے وہ امریکی صدر براک اوباما کی طرف سے انتظامی پابندیوں عائد کیے جانے والے افراد میں سے ایک بن گئیں۔ ان پابندیوں کے تحت ان کے امریکہ میں اثاثے منجمد کر دیے گئے اور ان کے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی۔

اس کے بعد انہیں 17 مارچ 2014 کو امریکہ اور کینیڈا، 21 مارچ 2014 کو یورپی یونین، 2 اپریل 2014 کو سوئٹزرلینڈ، 17 اپریل 2014 کو لیشٹینسٹائن، 19 جون 2014 کو آسٹریلیا اور 16 اکتوبر 2016 کو یوکرین کی جانب سے پابندیوں کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔

یوکرین پر 2022 کے روسی حملے کے جواب میں  6  اپریل 2022 کو امریکہ کے محکمہ خزانہ کے غیر ملکی اثاثوں کے کنٹرول کے دفتر نے ایگزیکٹو آرڈر کے مطابق پابندیوں کی فہرست میں کو شامل کیا۔

ویلنٹینا شادی شدہ ہیں اور ان کا ایک بیٹا اور پوتی خاندان کا حصہ ہیں۔

اسلام آباد میں ایک غیرملکی صحافی نے اس دورہ کے بارے میں کہا کہ روس پاکستان میں سرمایہ کاری کا خواہاں ہے لیکن پاکستان کی جانب سے غیرواضح وجوہات کی بنیاد پر قدرے سرمہری دیکھی جا رہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دفتر