خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں تقریباً تین ہفتوں سے جاری کشیدہ صورت حال کے بعد پشتون قومی جرگے نے امید ظاہر کی ہے کہ جلد علاقے میں امن قائم ہونے کی خوش خبری سنائی جائے گی۔
جمیعت علمائے اسلام کے مرکزی رہنما اور سابق رکن صوبائی اسمبلی مفتی کفایت اللہ کی سربراہی میں قائم پشتون قومی جرگہ گذشتہ تین دسمبر سے ضلع کرم میں موجود ہے۔
جرگے کے دیگر اراکین میں ملک نصیر آفریدی، ملک عبدالحمید شیرانی، برکت آفریدی، قیصر خان درانی، زبیر انجم، ملک عطا محمد ایڈوکیٹ اور خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں سے مشران شامل ہیں۔
جرگے نے پہلے لوئر کرم کے علاقے بگن، صدہ اور چپری میں وہاں کے مشران سے ملاقات کی اور جرگے کے مطابق کامیاب مذاکرات کے بعد اگلے دن اپر کرم کے صدر مقام پاڑہ چنار چلے گئے۔
پاڑہ چنار میں بھی اہل تشیع کی نمائندہ تنظیم انجمن حسینیہ کے رہنماؤں اور وہاں کے عمائدین سے جرگے نے ملاقات کی۔
پاڑہ چنار میں جرگے کے سربراہ مفتی کفایت اللہ نے میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ دونوں فریقین کی جانب سے امن کا پیغام دیا گیا ہے اور فریقین کی یہی خواہش ہے کہ ضلعے میں امن قائم ہوں۔
انہوں نے بتایا، ’ہم نے دونوں فریقین کو سنا اور فریقین نے ہر جگہ ہمارا استقبال کیا اور ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے اور مجھے امید ہے کہ آج (چھ دسمبر) یا سات دسمبر کو ہم کسی حتمی نتیجے پر پہنچ کو عوام کو خوش خبری سنائیں گے۔‘
مفتی کفایت اللہ نے بتایا کہ اس جرگے کا واحد مقصد ضلع کرم کو امن کا گہوارہ بنانا ہے اور دونوں فریقین کی جانب سے ’بہت مثبت اور سمجھداری کا پیغام ملا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گذشتہ روز پاڑہ چنار کی مرکزی امام بارگاہ میں جرگے کی موجودگی میں پاڑہ چنار کے افراد اکھٹے ہوئے تھے اور جرگے کے سامنے اپنا موقف پیش کیا۔
انجمن حسینیہ کے جنرل سیکریٹری جلال حسین بنگش نے جرگے کے سامنے طوری اور بنگش قبائل کا موقف سامنے رکھتے ہوئے بتایا کہ کرم میں جاری لڑائیاں فرقہ ورانہ نہیں بلکہ زمینی تنازعات کی وجہ سے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ کرم میں 1943 سے لینڈ ریوینیو ریکارڈ موجود ہے اور یہاں کے اقوام کے مابین زمینی تنازعات کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔
جلال بنگش نے بتایا، ’ہم آئے ہوئے جرگے کو خوش آمدید کہتے ہیں اور یہی چاہتے ہیں کہ کرم میں امن قائم ہوں۔اہل سنت کے اقوام کو بھی یہی کہتا ہوں کہ آئیں اور اس لڑائی کو آخری لڑائی سمجھ کر معاملات کو حل کرتے ہیں۔‘
لوئر کرم کے علاقے صدہ میں جرگے نے اہل سنت کے اقوام سے بھی ملاقات کی۔
لوئر کرم سے تعلق رکھنے والے اور جرگے کے ساتھ ملاقات میں شامل ملک امجد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جرگے کوکہا گیا کہ چونکہ یہ پہلی اور تعارفی ملاقات تھی تو ہم نے جرگے کے سامنے جو واقعات ہوئے ہیں، وہ سامنے رکھے اور جرگے کی روایت کے مطابق ان سے بات چیت کی۔
ملک امجد نے بتایا، ’ہم نے ابھی جرگے کے سامنے کوئی مطالبہ نہیں رکھا ہے بلکہ یہ ایک تعارفی ملاقات تھی۔ موجودہ جرگہ کے علاوہ بھی ایک گرینڈ جرگہ اس مسئلے کے حل کے لیے کوشش کر رہا ہے اور اس کے ساتھ بھی ہماری بات چیت جاری ہے۔‘
جرگے کے رکن برکت علی آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دونوں فریقین نے ‘تیگه’ (پشتون جرگہ کی روایت کے مطابق فائر بندی کو کہا جاتا ہے) کا بتایا ہے اور امید ہے اس حوالے سے کامیابی حاصل ہو گی۔
انہوں نے بتایا کہ ’جب تک ہم اس معاملے کو حل نہیں کرتے، جرگہ کرم میں موجود رہے گا اور دونوں فریقین کے مابین صلح کی کوشش کریں گے۔‘
برکت علی نے بتایا، ‘آج ہم پاڑہ چنار میں اہل سنت پر مشتمل گاؤں بوشہرہ گئے اور وہاں لوگوں سے ملاقاتیں کی۔ تمام فریقین نے احسن طریقے سے جرگے کا خیر مقدم کیا۔‘
کرم میں حالیہ کشیدکی اور جھڑپیں
ضلع کرم میں 21 نومبر کو لوئر کرم کے علاقے بگن میں پاڑہ چنار جانے والی گاڑیوں کے قافلے پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے کم از کم 42 افراد جان سے گئے تھے۔
اس سے اگلے روز کوئر کرم کے مرکزی بازار بگن کو نامعلوم افراد کی جانب سے جلایا گیا اور ساتھ میں گھروں کو بھی آگ لگا دی گئی۔
اس کے بعد علاقے میں کشیدگی بڑھ گئی اور لوئر اور اپر کرم کے مختلف علاقوں میں فریقین کے مابین جھڑپوں کا آغاز ہوا جس میں مجموعی طور پر ضلعی انتظامیہ کے مطابق 133 افراد جان سے گئے اور 150 سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔
ضلع کرم میں دو دسمبر کو جرگے کی کوششوں سے فریقین کے مابین فائر بندی کا اعلان کیا گیا اور ضلعی انتظامیہ اور پولیس کے مطابق فریقین کی جانب سے قائم مورچے سکیورٹی فورسز کے حوالے کیے گئے۔
تاہم فائر بندی کے بعد ٹل پاڑہ چنار کی مرکزی شاہراہ گذشتہ تقریبا 50 دنوں سے ہر قسم کے ٹریفک کے لیے بند ہے جس سے علاقے کو لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔