جنوبی کورین صدر کی مارشل لا پر معافی، استعفیٰ دینے سے گریز

تین دسمبر کو مارشل لا لگانے کے اعلان کے بعد ہفتے کو ٹیلی ویژن پر اپنے پہلے خطاب میں صدر یون سک یول نے کہا:’میں عوام کے لیے پریشانی اور تکلیف کا باعث بنا۔ میں مخلصانہ طور پر معذرت خواہ ہوں۔‘

 جنوبی کوریا کے صدارتی دفتر کی طرف سے سات دسمبر 2024 کو لی گئی اور جاری کی گئی اس ہینڈ آؤٹ تصویر میں جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول کو سیئول میں صدارتی دفتر میں خطاب کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے (ہینڈ آؤٹ / جنوبی کوریا صدارتی دفتر / اے ایف پی) 

جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول نے رواں ہفتے مارشل لا لگانے کے اپنے اقدام پر ہفتے کو معافی تو مانگ لی، لیکن استعفیٰ دینے سے گریز کیا۔ دوسری جانب ان کے مواخذے کے لیے ہونے والی ووٹنگ سے قبل مظاہرین پارلیمنٹ کے باہر جمع ہیں، جو ان کی سیاسی قسمت کا فیصلہ کر سکتا ہے۔

صدر یون سک یول نے منگل (تین دسمبر) کی رات چار دہائیوں سے زائد عرصے میں پہلی بار مارشل لا لگا کر اور فوجیوں اور ہیلی کاپٹروں کو پارلیمنٹ میں تعینات کر کے قوم اور عالمی برادری کو حیران کر دیا تھا، لیکن قانون ساز اس حکم نامے کو مسترد کرنے میں کامیاب ہو گئے، جس کے بعد صدر یون سک یول بدھ کو اس حکم کو منسوخ کرنے پر مجبور ہوگئے۔

اس ’سیاسی ڈرامے‘ کے بعد ہفتے کو ٹیلی ویژن پر اپنے پہلے خطاب میں صدر یون سک یول نے کہا: ’مارشل لا لگانے کا اعلان بحیثیت صدر میری مایوسی سے پیدا ہوا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا: ’میں عوام کے لیے پریشانی اور تکلیف کا باعث بنا۔ میں مخلصانہ طور پر معذرت خواہ ہوں۔‘

حزب اختلاف اور ان کی اپنی پارٹی کے اہم ارکان نے صدر یون سک یول سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے اور پارلیمنٹ ان کے مواخذے پر ہفتے کو ووٹ ڈالنے والی ہے، تاہم حزب اختلاف کے رہنما لی جے منگ نے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ یہ تحریک منظور ہو جائے گی۔

ہفتے کو ووٹنگ سے قبل سینکڑوں مظاہرین پارلیمنٹ کی عمارت کے باہر جمع ہوئے، منتظمین کو امید تھی کہ قانون سازوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے دو لاکھ افراد شرکت کریں گے۔

صدر یون سک یول نے اپنے مختصر خطاب میں استعفیٰ دینے کی پیشکش نہیں کی بلکہ صرف اتنا کہا کہ وہ ’سیاسی صورت حال کو مستحکم کرنے کے لیے پارٹی کو اقدامات سونپیں گے، بشمول میری مدت ملازمت۔‘

صدر کی پیپلز پاور پارٹی (پی پی پی) اس معاملے پر منقسم ہے، قانون ساز جمعے کے آخر میں اس بات پر قائم رہے کہ وہ مواخذے کو روکیں گے، یہاں تک کہ پارٹی کے سربراہ ہان ڈونگ ہون کہہ چکے ہیں کہ یون سک یول کو عہدے سے ہٹ جانا چاہیے ورنہ سیئول کو مزید سیاسی افراتفری کا خطرہ ہے۔

ہان ڈونگ ہون نے ہفتے کو صحافیوں کو بتایا: ’صدر کے فرائض کی معمول کی کارکردگی (موجودہ) حالات میں ناممکن ہے اور صدر کا جلد استعفیٰ ناگزیر ہے۔‘

300 پر مشتمل پارلیمنٹ میں اپوزیشن بلاک کے پاس 192 نشستیں ہیں، جب کہ یون سک یول کی پیپلز پارٹی کے پاس 108 نشستیں ہیں۔

حکمران پارٹی کے صرف آٹھ قانون سازوں کو دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لیے ووٹ سے انحراف کرنے کی ضرورت ہے، جس کے بعد صدر یون سک یول کو آئینی عدالت کے فیصلے تک فرائض سے معطل کر دیا جائے گا۔

دوسری جانب پولیس نے مبینہ بغاوت کے الزام میں صدر یون سک یول اور دیگر سے بھی تفتیش شروع کر دی ہے۔

صدر یون سک یول نے اپنے خطاب کے دوران کہا: ’میں مارشل لا کے اعلان کے حوالے سے قانونی اور سیاسی ذمہ داری کے معاملے سے پیچھے نہیں ہٹوں گا۔‘

حزب اختلاف کے رہنما لی نے کہا کہ صدر یون کی تقریر ’انتہائی مایوس کن‘ تھی جبکہ بڑے پیمانے پر عوام ان سے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان کی تقریر ’صرف شہریوں میں غداری اور غصے کے احساس کو بڑھاتی ہے‘ اور موجودہ سیاسی افراتفری کا واحد حل ’صدر کا فوری استعفیٰ یا مواخذے کے ذریعے جلد رخصتی‘ ہے۔

جمعے کو جاری ہونے والے ایک رائے عامہ کے سروے میں 63 سالہ صدر یون سک یول کی حمایت 13 فیصد کی ریکارڈ کم ترین سطح پر ہوئی۔

63 سالہ ریٹائرڈ شہری لی وان پیو نے سیئول کے مرکزی ٹرین سٹیشن پر صدر یون سک یول کا خطاب سنتے ہوئے اے ایف پی کو بتایا: ’عوام انہیں معاف نہیں کریں گے۔‘

ایک 70 سالہ گھریلو خاتون نے کہا: ’میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ وہ عہدہ چھوڑ دیں۔‘

کچھ مظاہرین نے سیئول کے ضلع ییوڈو میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں، جہاں قومی اسمبلی واقع ہے۔ دوسری جانب شدید سرد موسم میں بھی حزب اختلاف کے اراکین رات بھر پارلیمنٹ میں موجود رہے، اس خدشے کے تحت کہ صدر یون عہدے پر رہنے کے لیے کچھ مایوس کن اقدام نہ اٹھا لیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا