’ہمیں جگہ جگہ روکا جا رہا ہے، اب ہم جہاں پولیس دیکھتے ہیں وہاں سے دوڑ لگا دیتے ہیں۔ میں پاگلوں کی طرح اپنے کزن کو ڈھونڈ رہا ہوں لیکن وہ نہیں مل رہا، کچھ پتہ نہیں وہ زندہ بھی ہے یا مر گیا۔‘
یہ کہنا ہے 27 سالہ شیرباز کا، جو اپنی پیدائش سے آج تک اسلام آباد میں رہائش پزیر ہیں۔ شیرباز پیشے کے اعتبار سے خوانچہ فروش ہیں اور اسلام آباد و راولپنڈی کی سبزی منڈی میں کام کرتے ہیں۔
حالیہ دنوں سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر مختلف صارفین ایسی ویڈیوز، تصاویر اور ان کے سامنے رونما ہونے والے واقعات بیان کر رہے ہیں جن سے تاثر مل رہا ہے کہ اسلام آباد پولیس مبینہ طور پر صرف ایک نسلی گروپ یعنی پشتونوں کو تحویل میں لے رہی ہے یا گرفتار کر رہی ہے۔
اس دوران بظاہر ان کا تعلق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے جوڑنے کی شکایات سامنے آئی ہیں۔ تاہم پولیس نے ان تاثرات کو رد کیا ہے۔
وزارت داخلہ کے ترجمان قادر یار ٹوانہ نے کسی خاص فرد کے خلاف کارروائی کے دعوؤں کو مسترد کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی نسلی پروفائلنگ یا ethnic basis پر کسی کو گرفتار کرنے کی کوئی پالیسی نہیں اور نہ ہی کبھی ہو سکتی ہے۔
ترجمان نے کہا: ’یہ ہمارے بنیادی حقوق کے خلاف ہے تو پروفائلنگ کیسے ہو سکتی ہے؟ اب اگر کوئی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہے اور وہ کہے کہ مجھے ریشل پروفائلنگ کی وجہ سے اٹھایا جا رہا ہے تو وہ غلط بات ہے۔‘
شیرباز نے حالیہ دنوں میں اپنے ساتھ رونما ہونے والے واقعات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا ’(اسلام آباد) منڈی میں مال بیچنا یا خریدنا محال ہوگیا ہے، ہمیں بہت زیادہ تنگ کیا جا رہا ہے۔
’یہ واقعات میرے ساتھ 26 نومبر کو ہونے والے پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے کے بعد سے ہو رہے ہیں۔‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ کوئی ایک روز کا واقعہ نہیں بلکہ تسلسل سے ہو رہا ہے۔ ’میں نے پولیس کو لوگوں کو روک کر ان کے موبائل چیک کرتے دیکھا ہے۔‘
شیر باز نے شک کا اظہار کیا کہ ’ظاہر سی بات ہے انہوں نے ہمیں پشتون ہونے کی وجہ سے روکا۔ کسی دوسرے کو نہیں تنگ کیا گیا۔
’ہم جہاں سے گزرتے ہیں وہاں یہ (پولیس سپاہی) پٹھانوں کو آواز دیتے ہیں اور ان پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے۔‘
شیرباز نے مزید بتایا: ’میرا اجمل خان نامی کزن گذشتہ پانچ روز سے لاپتہ ہے۔ میں پاگلوں کی طرح اسے ڈھونڈ رہا ہوں لیکن وہ نہیں مل رہا۔‘
انہوں نے الزام عائد کیا کہ ’پولیس جب ہمیں پکڑ کر لے جاتی ہے تو ہمیں پیسے لے کر چھوڑا جاتا ہے۔ جو پیسے دیتا ہے اسے چھوڑ دیتے ہیں اور جو نہیں دے سکتا انہیں ساتھ لے جاتے ہیں۔
’دو روز قبل بھی میرے بھائی کو پکڑا لیکن وہ وہاں سے بھاگ گیا۔ ہم اسی ڈر سے گھر میں بیٹھے رہتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں ہم مزدوری کیسے کام کر سکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پولیس ہمیں کہتی ہے کہ ہم پی ٹی آئی کے سپورٹر ہیں لیکن ہم کسی جماعت کے حامی نہیں۔‘
گذشتہ ماہ پی ٹی آئی کی قیادت بڑی تعداد میں مظاہرین کے ہمراہ اسلام آباد پہنچی تھی جن میں سے بیشتر کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا سے تھا۔
یہ مظاہرین وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی کے ہمراہ وفاقی دارالحکومت پہنچے تھے۔
وفاقی حکومت دھرنے کے دوران تحریک انصاف پر افغان پناہ گزینوں کی بڑی تعداد میں اسلام آباد لانے کا الزام بھی لگاتی رہی ہے۔
اس نے اس بابت درجنوں گرفتار افراد کو افغان بھی ظاہر کیا لیکن ابھی ان کی مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے ایک بیان میں اسلام آباد میں مقیم افغانوں کو 31 دسمبر تک این او سی لینے کی شرط بھی رکھی ہے۔
یہ احتجاج 26 اور 27 نومبر کی درمیانی شب طاقت کے استعمال سے ختم تو کر دیا گیا تھا لیکن اس کے بعد اسلام آباد پولیس نے سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں کو تحویل میں لینا شروع کیا، جس کی وضاحت پولیس نے ان لوگوں کے ’احتجاج کے دوران توڑ پھوڑ اور تشدد میں ملوث‘ ہونا قرار دیا تھا۔
انڈپینڈنٹ اردو نے شیرباز سمیت پانچ ایسے متاثرین سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی کہ آیا واقعی ’اسلام آباد پولیس نسلی پروفائلنگ کرتے ہوئے خصوصی طور پر پشتوں کو ہی تحویل میں یا گرفتار کر رہی ہے یا نہیں۔
’افغان باشندوں کو بھی پی ٹی آئی کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں‘
حکومت کے این او سی کے اعلان سے افغان پناہ گزینوں میں خوف پھیلا ہوا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ انہیں ویزوں میں شدید مشکلات کا سامنا رہا ہے، اب یہ نئے شرط ان کو مزید مشکلات سے دوچار کر دے گی۔
32 سالہ سیف اللہ ایک افغان ہیں، لیکن ان کی پیدائش اسلام آباد میں ہوئی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ وہ کبھی دھرنوں میں نہیں گئے لیکن اس کے باوجود پولیس انہیں آئے روز روک رہی ہے۔
’پشتون افراد جس بھی علاقے کے ہوں، انہیں روکا جا رہا ہے۔ اہلکار مجھ سے مہاجر کارڈ کے ساتھ چھ ہزار روپے لے گیا اور واپس چھوڑ دیا۔
’میرے ساتھ چھ مزید لڑکے پکڑے گئے، جن کے پاس پیسے نہیں تھے انہیں جیل لے گئے۔‘
سیف اللہ کے مطابق پولیس اہلکار نے کہا ’آپ بھی تو پی ٹی آئی کے جلسے میں آئے تھے، آپ نے بھی توڑ پھوڑ کی ہے۔ میں نے جواب دیا کہ میں نے کچھ نہیں کیا۔ لیکن پھر بھی مجھ سے میرا موبائل چھین لیا گیا اور تھانے لے گئے۔ یہ افغان باشندوں کو بھی پی ٹی آئی کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں۔‘
یہ تاثر ہے کہ پولیس اسلام آباد میں مقیم ہر افغان کو پشتون سمجھ کر تنگ کر رہی ہے، حالانکہ ان میں ایک بڑی تعداد ہزارہ اور ازبک نسل سے تعلق رکھتی ہے۔
کباڑ کا کاروبار کرنے والے 22 سالہ عبدالسلام نے بتایا جب وہ ترلئی میں اپنی دکان پر بیٹھے ہوئے تھے تو پولیس آئی اور انہیں شناختی کارڈ دکھانے اور گاڑی میں بیٹھنے کو کہا۔
’میں عوامی نیشنل پارٹی کا کارکن ہوں جبکہ میرے ساتھ اٹھائے گئے دکان دار کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ جب میں چک شہزاد کی حوالات پہنچا تو وہاں سات یا آٹھ پشتون پہلے سے ہی موجود تھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پولیس نے کہا ان کو پی ٹی آئی کھاتے میں ڈال دو، میں نے ان کو کہا بھی کہ میں اے این پی کا ورکر ہوں لیکن یہ جہاں کارڈ پر پختونخوا لکھا دیکھتے ہیں گاڑی میں ڈال دیتے ہیں۔‘
’پرامن پشتون کو ہرگز حراست میں نہیں لیا گیا‘
انڈپینڈنٹ اردو نے اس بارے میں حکام سے وضاحت چاہی۔ تاہم اسلام آباد پولیس نے اس طرح کے کسی بھی الزام کی تردید کی ہے۔
اسلام آباد پولیس کے ترجمان تقی جواد نے انڈپینڈنٹ اردو کو جاری ایک بیان میں کہا کہ ’حالیہ امن عامہ کی صورت حال کے دوران کسی بھی پرامن پشتون کو ہرگز حراست میں نہیں لیا گیا۔
’قانونی کارروائی شرپسند عناصر کے خلاف عمل میں لائی گئی ہے نہ کہ کسی قومیت اور علاقے کی بنیاد پر۔‘
ان کا کہنا تھا کہ مذموم مقاصد کے لیے یہ منفی پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے جو کہ قومی سالمیت کے خلاف ایک سازش ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’پشتون ہمارے بھائی اور ہمیں عزیز ہیں۔ غیور اور بہادر پشتون اس وطن عزیز کے محافظ ہیں اور پاکستانی قوم کا فخر ہیں۔‘
اس سوال پر کہ ’ان افراد کے موبائل فون بھی چیک کیے جا رہے ہیں؟ انہوں نے اسے ’جھوٹ‘ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ ’تھانوں میں کوئی فرد موجود نہیں، سب کو شناخت پریڈ یا ریمانڈ پر عدالتوں میں پیش کیا گیا ہے، ہمارے پاس جتنے بھی افراد تھے سب کو عدالتوں میں پیش کیا گیا۔ ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جا رہی ہے۔‘
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس ارباب طاہر نے بھی گذشتہ روز پی ٹی آئی کے احتجاج کے تناظر میں ’بےگناہ‘ افراد کی گرفتاریوں پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔
17 سالہ نصیب خان کو اسلام آباد میں ایک شادی کی تقریب میں جاتے وقت پولیس نے تحویل میں لیا تھا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’پولیس مجھے پٹھان ہونے کی وجہ سے لے گئی، تقریباً چھ ہزار روپے لے کر مجھے چھوڑا گیا۔‘ اس دعوے کی پولیس سے تصدیق نہیں ہوسکی۔
خوانچہ فروش عمران خان نے بتایا کہ ’میرے سامنے میرے 22 سالہ بھائی جمعہ خان کو اٹھایا گیا تھا، اب پتہ نہیں وہ کہاں ہے، نامعلوم ہے۔ میں بھاگ گیا لیکن میرا بھائی پیچھے رہ گیا۔ پکڑے جانے سے پہلے اس کا موبائل فون بھی چیک کیا گیا۔‘
عمران کے مطابق ’ہمارا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہم کبھی ان کے دھرنے میں گئے۔ ہم غریب لوگ ہیں، ان چیزوں کے لیے وقت کہاں ہے ہمارے پاس؟‘
ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ پولیس نے ان افراد سے بھی پوچھ گچھ کی ہے جنہوں نے تحریک انصاف کے کارکنوں کے لیے کھانا یا ادویات مہیا کیں۔
دوسری جانب وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے دو روز قبل وزیر اعظم شہباز شریف کو لکھے گئے ایک خط میں اس معاملے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ’گرفتار شہریوں کی فوری رہائی کا مطالبہ‘ کیا۔
خط میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی احتجاج کے بعد اسلام آباد میں صوبہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے مزدور طبقہ کو نشانہ بنایا گیا۔
’وزیر قانون نے ان واقعات کو تسلیم کیا‘
عطا اللہ کنڈی ایک وکیل ہیں جو مبینہ نسلی پروفائلنگ سے متاثر افراد کے کیسز دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے گذشتہ روز وزیر قانون اعظم نزیر تارڑ سے ایک وفد کی شکل میں ملاقات کی۔
انہوں نے کہا کہ ’وزیر قانون نے ان واقعات کو تسلیم کیا، انہیں بھی اس بات کا احساس تھا کہ یہ سب ہو رہا ہے۔ احتجاج کے دوران جائے وقوعہ سے پکڑے گئے ہیں تو ٹھیک ہے لیکن کچھ روز گزرنے کے بعد ایسا ہونا تشویش کا باعث ہے۔
اس طرح ٹھیک کام ہوتا ہوا بھی خراب ہو جائے گا۔‘ ان کے مطابق وزیر قانون نے صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے وقت مانگا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کچھ روز قبل وکیل شاہ فہد وزیر کے سامنے 15 سے زائد افراد کو پولیس جوڈیشل کمپلیکس کے اطراف سے اٹھا کر لے جا رہی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے ایسا ہونے سے روکنے کی کوشش کی تاہم پولیس ان افراد کو لے گئی۔
اس واقعے کے بعد 40 سے زائد افراد کے خاندان ان کی ٹیم سے جس کی سربراہی عطا اللہ کنڈی کر رہے ہیں، رابطے میں ہیں اور منصفانہ کارروائی چاہتے ہیں۔
تین روز قبل اسلام آباد کے وکلا نے ان افراد کے ساتھ اظہار یکجہتی اور مبینہ نسلی پروفائلنگ کے خلاف سیکٹر جی 11 میں واقع ضلعی عدالت سے اسلام آباد بار کونسل تک احتجاجی مارچ بھی کیا۔
ہیومن رائٹر کمیشن آف پاکستان نے بھی ایک بیان میں مبینہ نسلی پروفائلنگ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
کمیشن نے کہا کہ ’عام پشتون شہریوں کو حراست میں لینے کے بعد ان کی مبینہ نسلی پروفائلنگ پر اسے گہری تشویش ہے۔ اسلام آباد پولیس کو ایسی کسی بھی کارروائی سے گریز کرنا چاہیے جس سے ملک میں رہنے والی مختلف کمیونٹیز میں تفرقہ پیدا ہو۔‘
قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما اور ترجمان انجینیئر احسان اللہ نے ان واقعات کی روک تھام کے فوری مطالبے کے لیے اسلام آباد میں پریس کانفرنس بھی کی تھی۔
دوسری جانب صوبہ خیبر پختونخوا میں منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس، جس میں تحریک انصاف شریک نہیں تھی، کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ ’پرامن پشتونوں کو دوسرے صوبوں اور مرکز اسلام آباد میں بےجا تنگ نہ کیا جائے۔‘
پروفائلنگ کیا ہوتی ہے؟
کسی شخص کی نفسیاتی اور طرز عمل کی خصوصیات کی ریکارڈنگ اور تجزیہ، تاکہ کسی مخصوص شعبے میں ان کی صلاحیتوں کا اندازہ یا پیش گوئی کی جاسکے یا لوگوں کی شناخت میں مدد مل سکے پروفائلنگ کہلاتی ہے۔
نسلی پروفائلنگ عموماً اس وقت ہوتی ہے جب قانون نافذ کرنے والے ادارے یا دیگر حکام شک کی وجہ سے نسلی، مذہبی یا قومیت کی بنیاد پر لوگوں کی تحقیقات کرتے ہیں۔.