20 اکتوبر کی رات سینیٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم پر ووٹنگ سے کچھ دیر قبل بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ سردار اختر مینگل اور ان کے ساتھیوں کو بظاہر بغیر کسی وجہ کے مہمانوں کی گیلری سے بزور طاقت نکالا گیا اور پھر ان پر انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) کے تحت مقدمہ درج کر دیا گیا۔
ماہ رواں کے شروع میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور احتجاج کی غرض سے اسلام آباد کی طرف آتے ہوئے موٹر وے پولیس کے ساتھ الجھتے ہیں اور ان سمیت 30 سے زیادہ پی ٹی آئی کارکنوں پر دہشت گردی کے قانون کے تحت مقدمات درج کر لیے جاتے ہیں۔
اسی طرح جماعت اسلامی کے سابق سینیٹر مشتاق احمد خان کا وفاقی دارالحکومت میں ’غزہ بچاؤ‘ مارچ کی قیادت کے دوران پولیس سے آمنا سامنا ہوتا ہے اور ان سمیت کئی دوسرے افراد پر دہشت گردی کی روک تھام سے متعلق قانون کے تحت مقدمات درج کر لیے جاتے ہیں۔
حالیہ دنوں میں پیش آنے والے یہ چند ایک واقعات ہیں جن میں حکومت وقت نے سیاسی مخالفین کے خلاف مبینہ طور پر سیاسی وجوہات کی بنا پر اے ٹی اے کا استعمال کیا۔
پاکستان میں جلسوں، مظاہروں اور دیگر واقعات میں سیاسی رہنماؤں، کارکنوں حتیٰ کہ عام شہریوں پر بھی دہشت گردی کے مقدمات دائر کیے جاتے رہے ہیں۔
عسکریت پسندی اور انتہا پسندی پر قابو پانے کے لیے 1997 میں اینٹی ٹیررازم ایکٹ (اے ٹی اے یا انسداد دہشت گردی ایکٹ) کے نام سے قانون نافذ کیا گیا تھا، جس کے تحت ’دہشت گردی‘ میں ملوث افراد کے خلاف مقدمات چلائے جاتے ہیں۔
تاہم پنجاب اور سندھ میں بطور انسپکٹر جنرل پولیس خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر سید کلیم امام کے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق اس قانون کو عسکریت پسندی اور انتہا پسندی پر قابو پانے کے علاوہ سیاسی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔
اسلام آباد میں سینٹر فار گورننس ریسرچ (سی جی آر) نامی تھینک ٹینک کے زیر اہتمام شائع اس مقالے کے مطابق مذکورہ قانون کے تحت انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے اور اس کا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔
تحقیقی مقالے کے مطابق: ’اس غلط استعمال کی وجہ سے پاکستان نے ہمیشہ خود کو دہشت گردی سے متاثرہ ہونے پر زور دیا لیکن دنیا میں یہ قانون دیگر مقاصد کے استعمال کی وجہ سے کریمینل انتہا پسندی میں مشہور ہوا۔‘
مقالے میں کہا گیا کہ انسداد دہشت گردی کے قوانین کو معمولی جرائم اور سیاسی بنیادوں پر بنے مقدمات کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، جن میں انسانی حقوق کے خلاف ورزیاں بھی سرزد ہوتی ہیں۔
مقالے میں پاکستان میں شدت پسندی کے تاریخ پر بھی بات کی گئی، جس کے مطابق نائن الیون کے حملوں کے بعد پاکستان کے لیے یہ بڑا چیلنج اس وقت بنا، جب اسلام آباد نے امریکہ کی سربراہی میں شدت پسندی کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔
افغانستان میں سابق سویت یونین کے خلاف جنگ کے بعد پاکستانی معاشرے میں انتہا پسندی کا عنصر بڑھا اور اس دوران کچھ شدت پسند گروپ بننا شروع ہوئے۔
پاکستان میں شدت پسندی کے حوالے سے قوانین میں پہلے 1860 کا ایکٹ رائج تھا، جس کے بعد، تحقیقی مقالے کے مطابق، 1974 سے 1997 کے دوران دہست گردی سے متعلق مقدمات کی شنوائی کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کی گئیں۔ لیکن یہ عدالتیں زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہوئیں۔
1997 میں اے ٹی اے منظور کیا گیا، جس کے تحت مخصوص عدالتیں قائم کی گئیں اور دہشت گردی کے خلاف سخت اپروچ اپنائی گئی۔ تاہم اس قانون کا بھی بعد میں غلط استعمال شروع ہوا۔
یہی غلط استعمال، تحقیقی مقالے کے مطابق، عدالتوں کے لیے بھی ایک چیلنج بن گیا، جب کہ قوانین کو درست طریقے سے سمجھنے میں مشکلات درپیش آئی۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 2019 میں ایک عدالتی فیصلے میں لکھا کہ ہر شدت پسندانہ ایکٹ دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتا، بلکہ اے ٹی اے کے مطابق محض ایسا عمل دہشت گردی ہو گا، جس سے عوام میں خوف اور ریاست کو خطرہ محسوس ہو۔
تحقیقی مقالے کے مطابق اس فیصلے کے بعد قانون کے استعمال میں قدرے بہتری تو آئی لیکن مسائل موجود رہے۔
اعدادو شمار کیا کہتے ہیں؟
مقالے کے مطابق اے ٹی اے کے تحت 1997 سے 2019 کے دوران 38 ہزار 800 مقدمات درج کیے گئے اور ایک لاکھ 87 سے زیادہ گرفتاریاں کی گئیں۔
تاہم اس دوران صرف نو ہزار 550 افراد کو سزائیں ہو سکیں (اس میں بھی زیادہ بعد میں ختم کر دی گئیں)، جب کہ 28 ہزار سے زیادہ ملزمان باعزت بری ہوئے۔
انسداد دہشت گردی کے اس قانون کے تحت چلنے والے بہت سارے مقدمات تاحال زیر التوا ہیں، جن سے پاکستان کے عدالتی اور قانونی نظام کی ساکھ پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
اے ٹی اے کے تحت سب سے زیادہ مقدمات صوبہ سندھ میں (14 ہزار 74) درج کیے گئے، جن میں سے 19 ہزار سے زیادہ ملزمان گرفتار، صرف دو ہزار 795 کو سزا اور باقی رہا کر دیے گئے۔
صوبہ پنجاب اے ٹی اے کے تحت مقدمات کے حوالے سے دوسرا بڑا صوبہ بنا، جہاں 11 ہزار 203 کیسز درج کیے گئے، جن میں 32 ہزار گرفتاریاں ہوئیں، جب کہ پانچ ہزار 633 کو سزائیں دی گئیں۔
خیبر پختونخوا میں اے ٹی اے کے تحت سات ہزار سے زیادہ مقدمات درج ہوئے، جب کہ 12 ہزار سے زیادہ گرفتاریاں اور 281 سزائیں ہوئیں۔
بلوچستان میں اے ٹی اے کے تحت چار ہزار سے زیادہ مقدمات درج ہوئے، پانچ ہزار سے زیادہ گرفتاریاں اور محض 646 افراد کو سزائیں ہوئیں۔
اسلام آباد، گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور دیگر صوبوں میں 369 خواتین پر اے ٹی اے کے تحت مقدمات درج کیے گئے۔
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
بیرسٹر علی گوہر درانی پشاور ہائی کورٹ کے وکیل ہیں اور اے ٹی اے کے تحت سیاسی بنیادوں پر درج مختلف مقدمات کی پیروی کر چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’سب کو علم ہے کہ سیاسی بنیادوں پر درج مقدمات صرف ایک خاص مقصد کے لیے درج کیے جاتے ہیں اور اس کے پیچھے واحد مقصد کسی شخص کو جیل کے سلاخوں کے پیچھے رکھنا ہوتا ہے۔‘
بیرسٹر گوہر درانی کے مطابق: ’اے ٹی اے کے اس طرح کے استعمال کا بظاہر جز وقتی فائدہ تو ہو سکتا ہے لیکن طویل مدت میں یہ ریاست کے لیے نقصان دہ بنتا ہے کیونکہ ایسے مقدمات میں سزائیں بہت کم دی جاتی ہیں۔’
ان کا کہنا تھا کہ ’ایسے مقدمات میں ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے ملزمان کو رہا کر دیا جاتا ہے جبکہ دہشت گردی میں ملوث افراد کو رہا کرنے کا الزام ججوں پر لگا دیا جاتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سینیئر وکیل کا مزید کہنا تھا کہ اس قسم کے مقدمات میں ملزمان کا رہائی پانے سے عدلیہ کے گلوبل انڈیکس پر برا اثر پڑتا ہے ’کیونکہ مقدمات تو اے ٹی اے کے تحت درج ہوتے ہیں لیکن پولیس ایسے مقدمات میں ثبوت پیش نہیں کر سکتی۔‘
بیرسٹر گوہر کہا کہ ’نو مئی کے واقعات سے متعلق اے ٹی اے کے تحت درج کیسز ابھی تک پولیس کے لیے چلینج بنے ہوئے ہیں۔ ان کے لیے دہشت گردی کے ثبوت پیش کرنا مشکل ہو رہا ہے۔‘
اے ٹی اے کے تحت سیاسی بنیادوں یا معمولی جرائم میں ملوث افراد کے خلاف مقدمات مختلف حکومتوں میں درج کیے گئے، جن میں ماہرین سمجھتے ہیں کہ زیادہ ملزمان کی رہائی ہوئی کیونکہ ان مقدمات کے پیچھے مقصد سیاسی ہوتا ہے۔
2022 میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان پر اسلام آباد کے ایف نائن پارک میں جلسے سے خطاب کے دوران ججز کو دھمکی دینے پر دہشت گردی کے ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
بعد ازاں پنجاب میں پی ٹی آئی حکومت نے پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنماؤں میاں جاوید لطیف اور مریم اورنگزیب پر عمران خان کے خلاف تقریر کرنے پر اے ٹی اے کے تحت مقدمہ درج کر دیا۔
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بعض ماہرین سمجھتے ہیں کہ اس قانون کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں سرزد ہوتی ہیں۔
مختلف سیاسی ریلیوں اور جلسوں میں شرکا پر ماضی میں اے ٹی اے کے تحت مقدمات درج کیے گئے، جن میں طلبہ اور نوجوان بھی شامل تھے۔
پولیس کے لیے بھی بڑا چلینج
خیبر پختونخوا پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے، جو انسداد دہشت گردی کے محکمے (سی ٹی ڈی) میں فرائض کی انجام دہی کے علاوہ مختلف اضلاع میں پولیس سربراہ رہ چکے ہیں، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ’سیاسی بنیادوں پر اے ٹی اے کے تحت مقدمات پولیس کے لیے چلینج بن جاتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جب مقدمے میں اینٹی ٹیررازم ایکٹ کی دفعات شامل کی جاتی ہیں تو اس کی تفتیش ٹیررازم کے خصوصی افسران کرتے ہیں جس کے لیے بہت زیادہ وسائل استعمال کیے جاتے ہیں۔
پولیس کے اعلیٰ عہدے دار نے بتایا، ’سیاسی بنیادوں پر اے ٹی اے کے تحت درج مقدموں میں سے عدالتیں بھی پہلی فرصت میں اے ٹی اے کی دفعات نکال دیتی ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ دیگر پاکستانی قوانین میں موجود دہشت گردی سے متعلق دفعات سزائیں کم ہونے کے باعث اے ٹی اے کو ترجیح دی جاتی ہے۔
سیاسی مقاصد کے لیے اس قانون کو استعمال کرنے کے حوالے سے عہدے دار نے بتایا کہ اس طرح کے مقدمات سے اس ایکٹ کا بنیادی مقصد فوت ہو جاتا ہے۔