پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں متنازع پیس فل اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر آرڈیننس پر چار روزہ احتجاج کے بعد ہفتے کو حکومت کی جانب سے آرڈیننس واپس لے لیا گیا۔
حکومتی فیصلے کے بعد جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے آرڈیننس کے خلاف کشمیر بھر میں انٹری پوائنٹس پر دیے گئے دھرنے اور احتجاج ختم کرنے کے ساتھ ساتھ سڑکیں کھولنے اور شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کو بھی ختم کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پیس فل اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر آرڈیننس کے خلاف کشمیر بھر میں جاری پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن کا آج چوتھا روز تھا۔ گذشتہ شام حکومت کے ساتھ ہونے والے آخری مذاکرات کی ناکامی کے بعد ایکشن کمیٹی نے کشمیر بھر میں جاری احتجاج کو لانگ مارچ میں بدلتے ہوئے انٹری پوائنٹس کی جانب مارچ شروع کیا تھا۔
کشمیر بھر کے دیگر اضلاع میں موجود انٹری پوائنٹس مظاہرین کی جانب سے بند کرنے کے بعد مظفرآباد سے مرکزی قافلہ وادی جہلم، نیلم کے قافلوں سمیت رات نو بجے برارکوٹ کے مقام پر پہنچا جبکہ باغ، راولاکوٹ اور پونچھ ڈویژن کے قافلے نے رات 10 بجے کوہالہ کے مقام پر پہنچ کر دھرنے کی صورت میں احتجاج شروع کیا۔
کشمیر بھر میں انٹری پوائنٹس پر موجود ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین نے رات سخت ترین سرد موسم میں کھلے آسمان تلے گزاری۔
اس دوران جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے قائدین اور حکومت کے درمیان گذشتہ رات بھی مذاکرات جاری رہے جو صبح نو بجے مکمل کر لیے گئے، جس کے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے صدر کی جانب سے ’پیس فل اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر آرڈیننس‘ کو واپس لینے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔
سیکرٹری قانون کشمیر عبد الوحید کی جانب سے انڈپینڈنٹ اردو کو اس نوٹیفکیشن کی صحت کی تصدیق کی گئی۔
یہ نوٹیفکیشن حکومتی کمیٹی کے ذریعے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے قائدین کے حوالے کیا گیا، جس کے بعد ایکشن کمیٹی کی جانب سے پہیہ جام، شٹر ڈاؤن ہڑتال اور انٹری پوائنٹس پر دیے گئے دھرنے کو ختم کرنے کا اعلان کیا گیا۔
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے رکن شوکت نواز میر نے صدارتی آرڈیننس واپس لینے کے حکومتی فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے پاس کشمیر کے عوام اور بالخصوص بیرون ملک بسنے والے کشمیریوں کا مکمل مینڈیٹ ہے، جسے ہم نے عوام کی فلاح کے لیے استعمال کیا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’میں نے ہمیشہ حکومت سے کہا کہ آپ عوام کے مینڈیٹ کو کم سمجھ رہے ہیں، انہیں سمجھ نہیں آیا لیکن جب عوام نکلے تو انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا ہے۔‘
بقول شوکت نواز میر: ’یہ کالا قانون جس ضابطے کے تحت لگایا گیا، اسی کے تحت واپس کیا جاسکتا تھا لیکن جب عوام کا جم غفیر باہر آیا تو پھر حکومت کو عوام کی بات ماننی پڑی کیونکہ اللہ کے بعد حکمرانی بہرحال عوام کی ہی ہوتی ہے اور عوام ہی طاقت کا سر چشمہ ہیں۔‘
صدارتی آرڈیننس کی واپسی کے ساتھ حکومت نے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے دیگر مطالبات یعنی کارکنان کی رہائی،کمرشل بجلی کے ریٹس اور ایف آئی آر واپسی کے مطالبات بھی 90 روز کے اندر ماننے کا معاہدہ کیا ہے، جس کے بعد جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت کوہالہ کے مقام پر جاری دھرنا ختم کرتے ہوئے کوہالہ سے برارکوٹ کی جانب راونہ ہوچکی ہے۔
برارکوٹ کے مقام پر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے قائدین یہ نوٹیفکیشن اور معاہدہ عوام کے سامنے پڑھ کر سنائیں گے۔