شدید گرمی سے پاکستان، دیگر ممالک کے گارمنٹس کارکنان کو خطرہ: رپورٹ

اتوار کو جاری ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی درجہ حرارت کو بڑھا رہی ہے جس کے لیے گارمنٹس کے کثیر القومی ریٹیلرز اور برانڈز کو اس مسٔلے سے نمٹنے کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

13 جون 2024 کو فیصل آباد میں ایک گارمنٹس فیکٹری میں کارکن کام کر رہے ہیں (خلیل الرحمٰن/ اے ایف پی)

پاکستان، بنگلہ دیش اور ویتنام سمیت دنیا کے بڑے گارمنٹس بنانے والی فیکٹریوں میں کام کرنے والے کارکنان کو شدید گرمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اتوار کو جاری ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی درجہ حرارت کو بڑھا رہی ہے جس کے لیے گارمنٹس کے کثیر القومی ریٹیلرز اور برانڈز کو اس مسٔلے سے نمٹنے کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

یورپی یونین کے نئے ضوابط ایچ اینڈ ایم اور نائیکی جیسے بین الاقوامی برانڈز کو اپنے سپلائرز کے کارکنوں کے حالات کے لیے قانونی طور پر ذمہ دار بناتے ہیں اور ان پر دباؤ ڈالتے ہیں کہ وہ کارکنوں کی بہتری میں مدد فراہم کریں۔

کارنیل یونیورسٹی کے گلوبل لیبر انسٹی ٹیوٹ کے محققین کو معلوم ہوا کہ کراچی، ڈھاکہ، ہنوئی اور ہوچی من جیسے دیگر صنعتی شہروں میں قائم ٹیکسائل فیکٹریوں میں 2020 سے 2024 کے دوران 2005-2009 کے مقابلے میں 30.5 ڈگری سیلسیس سے زیادہ درجہ حرارت والے دنوں کی تعداد میں 42 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

یہ درجہ حرارت ’ویٹ بلبس‘ کے ذریعے ناپا جاتا ہے جو ہوا کے درجہ حرارت کے ساتھ ساتھ نمی کا حساب بھی رکھتے ہیں۔

اس حد سے اوپر، بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن انسانی جسم کے درجہ حرارت کی محفوظ سطح کو برقرار رکھنے کے لیے کام کے دوران زیادہ سے زیادہ آرام کی سفارش کرتی ہے۔

رپورٹ میں میں نائیکی اور لوائس سمیت صرف تین ریٹیلرز کی نشاندہی کی گئی ہے جو خاص طور پر اپنے سپلائر کے لیے وضع کیے گئے ضابطہ اخلاق کے تحت کارکنوں کو گرمی سے ہونے والی تھکن سے بچانے کے لیے پروٹوکول شامل کرتے ہیں۔

رپورٹ میں دیگر کمپنیوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ بھی کارکنوں کی بہبود کے لیے اقدامات کریں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کارنیل یونیورسٹی کے گلوبل لیبر انسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر جیسن جڈ نے بتایا: ’ہم اس مسئلے کے بارے میں کئی سالوں سے عالمی برانڈز سے بات کر رہے ہیں اور وہ اب جا کر اس مسٔلے پر توجہ دینا شروع کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر کوئی برانڈ یا ریٹیلر جانتا ہے کہ پروڈکشن ہاؤس میں درجہ حرارت بہت زیادہ ہے یا کارکنوں کی صحت کو نقصان پہنچ رہا ہے تو وہ اس کے بارے میں کچھ کرنے کے لیے ان نئے قواعد کا اطلاق کریں۔‘

یورپین یونین کا کارپوریٹ سسٹین ایبلٹی ڈیو ڈیلیجنس ڈائریکٹیو رواں سال جولائی میں نافذ ہوا اور 2027 کے وسط سے بڑی کمپنیوں پر لاگو ہونا شروع ہو جائے گا۔

ان ضوابط کے تحت کارخانوں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے زیادہ توانائی سے چلنے والے اور مہنگے ایئر کنڈیشنگ کی بجائے بہتر وینٹیلیشن اور پانی کے بخارات سے چلنے والے کولنگ سسٹم شامل ہو سکتے ہیں جو مینوفیکچررز کے کاربن کے اخراج میں مزید اضافے کا بھی باعث نہ بنیں۔

جیسن جڈ نے کہا کہ کچھ فیکٹری مالکان ممکنہ طور پر خود بھی اس طرح کی سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار ہوں گے یہ دیکھتے ہوئے کہ گرمی کا دباؤ کس طرح پیداواری صلاحیت کو نمایاں طور پر متاثر کرتا ہے لیکن یورپی یونین کے قوانین اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے برانڈز کی ذمہ داری کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔

رپورٹ میں ریٹیلرز اور برانڈز پر بھی زور دیا گیا ہے کہ وہ زیادہ اجرت اور صحت کے تحفظ میں سرمایہ کاری کریں تاکہ گرمی کی لہر کی وجہ سے کام کے دنوں کے دوران کارکنوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔

شروڈرز اینڈ گلوبل لیبر انسٹی ٹیوٹ کی گذشتہ سال کی تحقیق کے مطابق شدید گرمی اور سیلاب سے 2030 تک پاکستان، بنگلہ دیش، کمبوڈیا اور ویتنام سے ملبوسات کی برآمدات میں 65 ارب ڈالر کی آمدنی ختم ہو سکتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت