پاکستان میں شدید سیاسی ہلچل کے دوران ایک ایسا واقعہ پیش آیا ہے جس کا تصور بھی مشکل تھا۔ جاسوسی کرنے والے ادارے کے سابق طاقتور سربراہ اور ’بادشاہ گر‘ اب بغاوت کے الزامات میں فیلڈ کورٹ مارشل کا سامنا کر رہے ہیں۔
جنرل فیض حمید جو ماضی میں انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ رہ چکے ہیں اور گذشتہ کئی ماہ سے زیرِ حراست ہیں، ان پر اب باقاعدہ طور پر ریاست کی سلامتی اور مفادات کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ ان کا مقدمہ فوجی عدالت میں چلایا جا رہا ہے۔
پاکستان میں اعلیٰ سطح کا یہ پہلا بغاوت کا مقدمہ ہے جس میں کسی سابق اعلیٰ سکیورٹی عہدیدار کو ملوث کیا گیا ہے، ایسے ملک جہاں زیادہ تر وقت فوج نے براہ راست یا بالواسطہ حکومت کی ہے۔ یہ مقدمہ پاکستانی سیاست میں بدلتے ہوئے حالات کی عکاسی کرتا ہے۔
سابق انٹیلی جنس چیف پر الزام ہے کہ انہوں نے ’سیاسی مفادات کے لیے ملی بھگت کے تحت ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے‘ کی کوشش کی۔ یہ الزامات نہایت سنگین ہیں اور ان کے تحت سزائے موت دی جا سکتی ہے۔ اس مقدمے کی سماعت کے وقت نے صورت حال کو مزید دلچسپ بنا دیا ہے۔ تاہم اس سے بھی زیادہ اہم بات وہ پیغام ہے جو اس عمل کے ذریعے دیا جا رہا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ آئی ایس آئی سابق سربراہ کے خلاف فوجی عدالت کی کارروائی 26 نومبر کو اسلام آباد میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے قید حامیوں کے حکومت کے خلاف پرتشدد احتجاج کے چند دن بعد شروع ہوئی۔ احتجاج میں میں درجنوں افراد جان سے گئے اور زخمی ہوئے۔ یہ شاید دارالحکومت کا سب سے خونریز دن تھا جب مظاہرین سکیورٹی فورسز کی جانب سے مبینہ طور پر کی گئی فائرنگ کا نشانہ بنے۔
یہ خونی واقعہ فوج کی حمایت یافتہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشیدگی کو مزید بڑھا چکا ہے اور ملک کو گہری افراتفری کی طرف دھکیل چکا ہے۔ کئی مبصرین فیض حمید کے خلاف مقدمے کے آغاز کو اپوزیشن کے احتجاج سے جوڑتے ہیں۔ ریاست کے خلاف تشدد کو ہوا دینے کے الزامات نہایت سنگین ہیں۔
بہت سے لوگوں کے نزدیک سابق وزیراعظم کے ساتھ ان کے انٹیلی جنس چیف کے طور پر قریبی تعلقات کو ان کی گرفتاری اور مقدمے کی وجہ سمجھا جا رہا ہے۔ کچھ لوگ اسے فوج کے ’فوج کے سخت داخلی احتساب‘ کی بجائے ایسا مقدمہ قرار دے رہے ہیں جس کا محرک سیاسی ہے۔
فوج کے ترجمان نے بتایا کہ سابق انٹیلی جنس چیف پر گذشتہ سال نو مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک گیر پرتشدد مظاہروں میں مبینہ ملوث ہونے کی بھی تحقیقات ہو رہی ہے۔ ان مظاہروں میں ہجوم نے درجنوں فوجی تنصیبات پر حملے کیے، جن میں لاہور میں کور کمانڈر کی رہائش گاہ اور راولپنڈی میں فوج کا جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) شامل ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے متعدد حامیوں کی گرفتاری اور ان کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمات کے ساتھ ساتھ، نو مئی کے واقعے کے نتیجے میں فوج کے اندر بھی بڑے پیمانے پر تطہیر ہوئی۔
فوجی ترجمان کے مطابق سو سے زیادہ فوجی افسروں، جن میں لاہور کے کور کمانڈر بھی شامل ہیں، کو اس واقعے میں مبینہ کردار کے سبب برطرفی یا تحقیقات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ واقعہ جنرل فیض حمید کی ریٹائرمنٹ کے چند ماہ بعد پیش آیا۔ وہ اس وقت سے زیر نگرانی تھے جب انہوں نے آرمی چیف کی دوڑ میں ناکامی کے بعد فوج سے استعفیٰ دے دیا۔
جنرل فیض حمید، جو ایک متنازع انٹیلی جنس چیف رہے ہیں، اپنی ملازمت کے دوران اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی مسلسل توجہ کا مرکز بنے رہے۔ ان پر ہاؤسنگ سکیم سکینڈل میں ملوث ہونے کی تحقیقات ہو رہی تھی لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد کی سرگرمیوں سے متعلق الزامات زیادہ سنگین معلوم ہوتے ہیں۔
ان پر اختیارات کے ناجائز استعمال اور آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فیض حمید کو 2017 سے اس وقت شہرت ملی جب وہ ٹو سٹار جنرل کے طور پر آئی ایس آئی میں سیاسی امور کے انچارج بنے۔ انہیں 2019 میں عمران خان کی حکومت کے دوران آئی ایس آئی کا سربراہ بنایا گیا۔
2017 میں ہی ان پر ہاؤسنگ سوسائٹی سکینڈل میں ملوث ہونے کا الزام لگا جس کے مطابق انہوں نے مبینہ طور پر اس سکیم کے مالکان کے دفاتر اور رہائش گاہوں پر چھاپے مارنے کا منصوبہ بنایا۔ یہ واضح طور پر اختیارات کے مجرمانہ غلط استعمال کے زمرے میں آتا ہے لیکن اس وقت ان کے خلاف کوئی ’داخلی احتسابی عمل‘ نہیں ہوا۔ اس کے برعکس انہیں تھری سٹار جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر آئی ایس آئی کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔
عمران خان کی حکومت کے دوران وہ انتہائی طاقتور شخصیت کے طور پر ابھرے۔ سابق وزیراعظم نے بعد میں تسلیم کیا کہ وہ انٹیلی جنس ادارے پر ہر بات کے لیے انحصار کرتے تھے، چاہے وہ نازک حکومتی اتحاد کو برقرار رکھنا ہو یا اپوزیشن کو قابو میں رکھنا۔ یہی وجہ تھی کہ عمران خان نہیں چاہتے تھے کہ فیض حمید 2021 میں اپنا عہدہ چھوڑیں۔
تاہم جنرل فیض حمید کوئی منفرد شخصیت نہیں۔ ملک میں آئی ایس آئی کے سربراہ کا عہدہ کسی بھی شخص کو بے پناہ طاقت دیتا ہے اور ماضی کے بیشتر سربراہان پر بھی سیاسی مداخلت کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ جنرل فیض حمید اسی بات کی عکاسی کرتے ہیں جو پاکستان کی اس سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں ہو رہا ہو جو طاقت کے کھیل میں مسلسل ملوث رہی ہے۔ ان کا کیس شاید اس مسئلے کا صرف ایک پہلو ہے۔ وہ ایک ایسے نظام کی پیداوار ہیں جو اپنے عہدے داروں کو وسیع اختیارات دیتا ہے۔
لیکن یہ بھی ظاہر ہے کہ صورت حال میں تبدیلی کے باوجود ان کے خلاف مقدمہ ان کے جرائم پر احتساب کی وجہ سے نہیں بلکہ سیاسی محرکات کی بنیاد پر ہے۔
زاہد حسین ایوارڈ یافتہ صحافی اور مصنف ہیں۔ وہ ووڈرو ولسن سینٹر میں سکالر، یونیورسٹی آف کیمبرج کے وولفسن کالج میں وزیٹنگ فیلو، اور ڈی سی کے اسٹمسن سینٹر میں وزیٹنگ فیلو رہ چکے ہیں۔ ان کی کتاب ’فرنٹ لائن پاکستان: دی اسٹرگل ود ملٹنٹ اسلام‘ اور’دا سکورپینز ٹیل: دا ریلنٹ لیس رائز آف اسلامک ملٹنٹس ان پاکستان‘ بین الاقوامی سطح پر مقبول ہیں۔ فرنٹ لائن پاکستان کو 2007 میں وال اسٹریٹ جرنل نے سال کی کتاب قرار دیا۔ ان کی تازہ ترین کتاب ’نو وِن وار‘ اس سال شائع ہوئی ہے۔
یہ کالم اس سے قبل عرب نیوز میں شائع ہو چکا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔