فیض حمید پر فرد جرم کیا عمران خان کے خلاف ممکنہ ملٹری ٹرائل کا عندیہ ہے؟

فیض حمید، جنہوں نے جون 2019 سے اکتوبر 2021 تک خفیہ ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر خدمات انجام دیں، کو سابق وزیر اعظم عمران خان کے سب سے بڑے حمایتی اور ساتھی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

23 جون، 2021 کو اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان اسلام آباد میں آئی ایس آئی سیکریٹریٹ کا دورہ کر رہے ہیں جہاں جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید ان کے ہمراہ ہیں (پی آئی ڈی)

رواں ہفتے آئی ایس آئی کے سابق سبراہ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید کو سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے سمیت متعدد الزامات کے تحت باضابطہ طور پر چارج شیٹ کر دیا گیا، جس کے بعد قانونی اور سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جیل میں بند سابق وزیراعظم عمران خان کے لیے بھی ایک ’واضح پیغام‘ ہو سکتا ہے کہ ان کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔

فیض حمید، جنہوں نے جون 2019 سے اکتوبر 2021 تک خفیہ ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر خدمات انجام دیں، کو 2018-2022 تک وزیر اعظم کے عہدے پر فائز عمران خان کے سب سے بڑے حمایتی اور ساتھی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف کی موجودہ حکومت نے اگست میں فیض حمید کی گرفتاری کے وقت کہا تھا کہ وہ عمران خان کی قیادت میں اس ’سیاسی گٹھ جوڑ‘ کا حصہ تھے، جنہوں نے نو مئی 2023 میں عمران خان کی گرفتاری کے بعد پرتشدد احتجاج کی منصوبہ بندی کی تھی اور سرکاری اور فوجی عمارتوں پر حملے کیے گئے تھے۔

وزیر دفاع خواجہ آصف تب سے کہتے آ رہے ہیں کہ فیض حمید نے تشدد کی منصوبہ بندی میں عمران خان کے ’سٹریٹجک ایڈوائزر‘ کا کردار ادا کیا تھا۔

ان کے بقول سابق وزیر اعظم کی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے افرادی قوت فراہم کی، جب کہ فیض حمید اس ’سازش کے ماسٹر مائنڈ‘ تھے۔

احتجاج کے بعد پی ٹی آئی کے رہنماؤں سمیت ہزاروں حامیوں کو گرفتار کر لیا گیا اور بہت سے لوگ مقدمے کی سماعت کے انتظار میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید ہیں۔

فوج نے تشدد میں ملوث ہونے کے الزام میں کم از کم 103 افراد کے خلاف فوجی عدالت میں ٹرائل بھی شروع کیے اور ایسی اطلاعات ہیں کہ فوج عمران خان کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت غداری اور بغاوت کو بھڑکانے کی کوشش کے الزام میں مقدمہ چلانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

پی ٹی آئی اس بات کی تردید کرتی ہے کہ ان کے رہنما نے فسادات کی منصوبہ بندی کی کیوں کہ جب یہ فسادات ہوئے تو وہ جیل میں قید تھے۔

عمران خان کے خلاف پہلے ہی ایک سول عدالت میں مبینہ طور پر تشدد کو ہوا دینے کے الزام میں مقدمات زیر سماعت ہیں جب کہ اس الزام کو انہوں نے کئی بار مسترد کیا ہے۔

پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت فوج کے ارکان یا ریاست کے دشمنوں پر مقدمہ چلانے کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں۔

ایسے ٹربیونلز میں عام شہریوں پر صرف وفاقی حکومت کے حکم کے تحت ہی مسلح افواج یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف جنگ چھیڑنے، یا فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے یا بغاوت کو بھڑکانے کے جرم میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔

فیض حمید کے وکیل نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ پاکستان کی فوج نے بھی اس معاملے پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا لیکن موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے مئی میں کسی کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ ’ہماری تاریخ کے اس سیاہ باب کے منصوبہ سازوں اور معماروں کے ساتھ کوئی سمجھوتہ یا ڈیل نہیں ہو سکتی۔‘

سیاسی تجزیہ کار مظہر عباس نے عرب نیوز کو بتایا کہ فیض حمید کا کورٹ مارشل عمران خان کے لیے بھی ایک پیغام ہے۔

نو مئی کے حوالے سے کیس ابھی حتمی نہیں ہے لیکن اگر جنرل فیض اور عمران کے درمیان گٹھ جوڑ ثابت ہو گیا تو یہ کیس تاریخ میں ایک نیا موڑ لے سکتا ہے۔

انسانی حقوق کی ایک ممتاز وکیل ایمان مزاری حیدر نے فیض حمید کے مقدمے کے پیچھے کی نیت پر سوال اٹھایا۔

انہوں نے فوجی ٹرائلز کی خفیہ نوعیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’اگر ان (فیض حمید) کے حلف کی خلاف ورزیوں، آئین کی خلاف ورزیوں، پاکستانیوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے ڈی جی آئی ایس آئی کے طور پر ان کو جوابدہ ٹھہرانے کا کوئی حقیقی ارادہ ہے تو ہم ایک بہت ہی مختلف قسم کا ٹرائل دیکھ رہے ہوں گے۔ احتساب کا ایک بہت ہی مختلف انداز۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے بقول: ’کسی نہ کسی سطح پر میرا خیال ہے کہ یہ عمران خان کو آرمی ایکٹ کے دائرے میں لانے کے لیے بھی کیا جا رہا ہے۔ اس کا مقصد شاید بعد کے مرحلے میں ایک بہت ہی مقبول، عوامی رہنما کو آرمی ایکٹ کے دائرے میں لانا ہے۔‘

 عمران خان خود کہہ چکے ہیں کہ فیض حمید کی گرفتاری کا مقصد بالآخر انہیں نشانہ بنانا ہے کیونکہ ان کے خلاف دیگر مقدمات ختم رہے ہیں اور انہوں نے سول عدالتوں میں کئی قانونی فتوحات حاصل کی تھیں۔

اس سال کے شروع میں جیل میں ہونے والی سماعت کے دوران ان کے وکیل نعیم نے عمران خان کا پیغام دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’میرے مقدمے کو فوجی عدالت میں چلانا ایک ڈرامہ ہے۔‘

ستمبر میں ایک میڈیا بریفنگ میں فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے ایک صحافی کے سوال کے جواب میں عمران خان کے خلاف فوجی ٹرائل کا اشارہ دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ عدالت میں زیر غور ہے اور اس لیے اس پر عوامی طور پر بات کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

انہوں نے اسی وقت ان قواعد کا خاکہ پیش کیا جن کے تحت فوجی قانون کے تحت کسی شہری پر مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔

فوج کے ترجمان نے کہا: ’کوئی بھی شخص جو اپنے ذاتی یا سیاسی مفادات کے لیے آرمی ایکٹ کے پابند کسی فرد یا افراد کو استعمال کرتا ہے اور اس کے بارے میں شواہد موجود ہوں تو قانون اپنا راستہ اختیار کرے گا۔‘

پاکستان کی فوجی عدالتیں سویلین قانونی نظام سے الگ نظام کے تحت کام کرتی ہیں اور انہیں فوجی حکام چلاتے ہیں۔ ایسے ٹربیونلز کے جج بھی فوجی افسر ہوتے ہیں اور مقدمات فوجی عمارتوں میں چلتے ہیں۔

ان ٹرائلز میں باہر والوں اور میڈیا کے آنے پر پابندی ہے۔

عدالتوں کو پاکستان کے اندر اور عالمی سطح پر حقوق کی تنظیموں کی جانب سے ان کی خفیہ نوعیت اور فعال سویلین قانونی نظام کے ساتھ ان کے متوازی وجود کی وجہ سے بڑے پیمانے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلانے والے کسی بھی شخص کو بھی اپنا دفاع کرنے اور اپنی پسند کے وکیل کو شامل کرنے کا حق حاصل ہے۔

سزا یافتہ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں اس فیصلوں کو چیلنج کر سکتے ہیں۔

فیض حمید پر کرپشن کے الزام میں کورٹ مارشل کا مقدمہ چل رہا ہے جب کہ فوج کا کہنا ہے کہ ان پر 2022 کی ریٹائرمنٹ کے بعد سروس میں طاقت کا غلط استعمال اور آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کے بھی الزامات ہیں۔

ان الزامات کی سزا 14 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

فوج ترجمان نے ستمبر کی بریفنگ میں کہا کہ ’ریٹائرڈ افسر پر کچھ مخصوص سیاسی عناصر کے کہنے پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے قانونی اور آئینی حدود سے تجاوز کرنے کا بھی الزام ہے۔‘

عمران خان نے 2022 میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ مبینہ اختلافات کے بعد فوج کے خلاف مہم چلائی تھی۔

جس کے بعد انہیں پارلیمانی عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا، جس کے بارے میں ان کے بقول اسے فوجی جنرلز کی حمایت حاصل تھی۔

 فوج اس سے انکار کرتی ہے کہ وہ سیاسی معاملات میں مداخلت کرتی ہے لیکن پاکستان میں فوجی بغاوتوں اور سویلین حکمرانی کے دور میں بھی سیاست میں پوشیدہ کردار کی ایک طویل تاریخ ہے۔

عمران خان نے فیض حمید کو 2019 میں آئی ایس آئی کا سربراہ مقرر کیا تھا جو پاکستان میں سب سے زیادہ طاقتور عہدوں میں سے ایک ہے اور جو قومی سیاست اور عسکری اور خارجہ امور کے درمیان کام کرتا ہے۔

دو سال بعد جب فوج نے فیض حمید کو آئی ایس آئی سے کور کمانڈ میں منتقل کیا تو عمران خان نے ابتدائی طور پر اس اقدام کی مخالفت کی تھی جو ان کے اور فوج کی اعلیٰ قیادت کے درمیان تقسیم کی پہلی عوامی علامت تھی۔

عمران خان نے پاکستانی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے اعتراف کیا تھا کہ جب اپوزیشن نے ان کی برطرفی کی منصوبہ بندی شروع کر دی تھی تو وہ چاہتے تھے کہ فیض حمید 2021 میں ڈی جی آئی ایس آئی رہیں۔

کالم نگار سمیر کھوسہ نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ قیاس آرائیاں کرنا قبل از وقت ہے کہ آیا فیض حمید کے فوجی عدالت میں جاری مقدمے میں عمران خان کو گھسیٹنے کے لیے بھی راہ ہموار کی جائے گی۔

ان کے بقول: ’عام شہری ایک منصفانہ اور کھلی عدالت میں سماعت کا حق رکھتے ہیں جہاں انہیں ثبوتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں ایک منصفانہ اور آزاد دفاع کا حق حاصل ہے۔‘

سمیر کھوسہ نے کہا کہ ’فوجی ٹرائلز کا مقصد فوجی افسران کے ذریعے فوجی افسران کی اندرونی تادیبی کارروائیوں کے لیے ہوتا ہے کیونکہ وہ فوجی نظم و ضبط کے پابند ہوتے ہیں لیکن شہریوں کو ایک آزاد اور غیر جانبدار فورم کے سامنے مقدمہ چلانے کا حق ہے جو عوام اور میڈیا کے لیے کھلا ہو۔ یہ آئینی ضمانت ہے۔ یہ انسانی حقوق کا بین الاقوامی اصول ہے۔‘

پی ٹی آئی کے ایک سینیئر رہنما اور عمران خان کے قریبی مشیر سید ذوالفقار بخاری نے کہا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کا کورٹ مارشل اور گرفتاری ’فوج کا داخلی معاملہ‘ تھا جس کا عمران خان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ان کے بقول: ’یہ مضحکہ خیز ہے کہ فوج اب فیض حمید کے خلاف کارروائی کر رہی ہے لیکن پچھلے پانچ سالوں میں نہیں جب وہ عہدہ پر فائز تھے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’انہیں (فوج) کو چاہیے کہ وہ اپنے گھر (کی خرابی) کو کسی اور سے جوڑنے کی کوشش کرنے سے پہلے پہلے خود اسے ٹھیک کریں۔ لہذا ان کے جو بھی مسائل ہیں یہ ان کا اپنا اندرونی معاملہ ہے۔‘

عرب نیوز کے لیے یہ تحریر منیجنگ ایڈیٹر مہرین زہرا ملک اور نامہ نگار نعمت خان نے ترتیب دی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان