16 دسمبر کو سکول بند، خوف کا خاتمہ کب ہوگا؟

پاکستان کو تفریق نہیں اتحاد چاہیے تاکہ کسی بچے کو خوف کے عالم میں سکول نہ جانا پڑے۔

16 نومبر 2015، کو لی گئی اس تصویر میں 16 دسمبر، 2024 کو آرمی پبلک سکول پشاور میں طالبان کے ہاتھوں قتل کیے جانے والے طالب علم کی رشتہ دار خاتون سٹیج پر تصویر رکھ رہی ہیں (اے مجید/ اے ایف پی)

پشاور میں ایک سکول پر پاکستان کی تاریخ کے بدترین دہشت گرد حملے کے 10 سال بعد بھی سلامتی کے خدشات سے پیچھا نہیں چھڑایا جا سکا۔

ایک خوف جس نے بچوں اور ان کے والدین کو جکڑ رکھا ہے اس کا مکمل خاتمہ نجانے کب اور کیسے ہو گا۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے علاوہ راولپنڈی اور لاہور میں تعلیمی ادارے 16 دسمبر کو بند کرنے کے نوٹیفکیشن نے والدین کے دلوں ایک بار پھر دہلا دیا کہ سکول اب تک محفوظ نہیں۔

نوٹیفکیشن آیا بھی تو اچانک اور حکام کی طرف سے مختلف اضلاع میں عام تعطیل کی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی گئی لیکن بظاہر ماسوائے سکیورٹی خدشات کے کوئی اور وجہ نظر نہیں آتی۔

آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) پشاور پر 16 دسمبر 2014 کو تعلیمی ادارے اور بچوں پر ملک کی تاریخ کے بدترین حملے کے بعد اگرچہ ریاست نے ’دہشت گردی‘ کے خاتمے کے لیے بھرپور کارروائیاں کیں لیکن بدقسمتی سے اب بھی شدت پسندی تعلیم، بچوں اور معاشرے کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جس طرح دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سب کو ایک پیج پر لانا مشکل رہا اسی طرح 16 دسمبر کو ملک بھر میں چھٹی کی بجائے محض کچھ اضلاع میں تعطیل نے ایسے سوالات کو جنم دیا کہ کیا ہم متفقہ طور پر کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے۔

پشاور، جہاں اے پی ایس پر حملہ کیا گیا اور اس کے علاوہ بھی اس صوبے میں تعلیمی اداروں کو عسکریت پسند نشانہ بناتے رہے، وہاں 16 دسمبر 2024 کو تعلیمی ادارے کھلے ہیں جس سے یوں لگتا ہے کہ وہاں 10ویں برسی کے موقعے پر نہ تو سکیورٹی خدشات ہیں اور نہ  کوئی خطرہ۔

ایک ایسا حملہ جس نے نہ صرف ان والدین اور خاندانوں کی زندگیوں کو متاثر کیا جن کے بچے اس حملے میں جان سے گئے یا زخمی ہوئے بلکہ اس حملے نے ملک بھر میں بچوں اور والدین کے ذہنوں پر گہرے اثرات چھوڑے۔

بچے مستقبل ہوتے ہیں اور مستقبل کو محفوظ بنانا تو ترجیح ہونی چاہیے لیکن منقسم بیانات اور حکمت عملی سے اس کا حصول ممکن نہیں۔

10 سال قبل حملے نے پاکستانیوں کے دل توڑے لیکن گذشتہ ایک دہائی میں میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہم تاحال یکجان نہیں ہوئے اور یہ حقیقت ہے کہ محض لفاظی اور بھر پھرپور کارروائیوں کے بیانات سے مقصد حاصل نہیں ہو گا۔

تعطیل سے کوئی پیغام دینا مقصود تھا تو پھر ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں چھٹی ہونی چاہیے تھی کیونکہ ہمیں تفریق نہیں اتحاد چاہیے تاکہ بچے کو خوف کے عالم میں سکول نہ جانا پڑے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ