اے پی ایس کیس میں حکومت رپورٹ پیش کرے: سپریم کورٹ

وزیراعظم کی سپریم کورٹ میں پیشی کے موقع پر عدالت نے حکم دیا کے چار ہفتوں میں پیش کی جانے والی رپورٹ پر وزیراعظم کے دستخط ہونا ضروری ہیں۔

پشاور کے آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) پر حملے میں جان سے جانے والے طلبہ کے والدین کی درخواستوں پر بدھ کو سماعت کے دوران وزیر اعظم عمران خان کی عدالت میں پیشی کے بعد عدالت نے سماعت چار ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔ عدالت نے حکومت کو چار ہفتوں بعد وزیراعظم کے دستخط کے ساتھ رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔

وزیراعظم عمران خان سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تو انہوں نے عدالت کو اس حوالے سے کیے جانے والے حکومتی اقدامات سے آگاہ کیا۔

وزیراعظم کا عدالت میں کہنا تھا کہ اے پی ایس سانحے کے وقت خیبر پختونخوا میں ہماری حکومت تھی اور ہم نے اس حوالے سے ہر ممکن اقدامات کیے۔

وزیراعظم کا عدالت میں کہنا تھا کہ اگر عدالت چاہتی ہے تو اے پی ایس کے معاملے پر اعلی سطحی کمیشن بنا دیں۔

جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے کمیشن بن چکا جس کی رپورٹ بھی آ چکی ہے۔

عدالت نے ہدایت کی کہ حکومت اے پی ایس سانحے میں متاثر ہونے والوں بچوں کے والدین کا موقف لے کر کارروائی کرے۔ جس پر وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ’اللہ بچوں کے والدین کو صبر دے۔ ہم معاوضہ دینے کے علاوہ کیا کر سکتے ہیں؟‘

اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’بطور وزیراعظم آپ کے پاس ان سوالات کا جواب ہونا چاہیے۔‘

اس موقعے پر جسٹس قاضی امین کا کہنا تھا کہ ’مسٹر وزیراعظم ہم کوئی چھوٹا ملک نہیں ہیں۔‘

جسٹس اعجازالحسن نے سوال کیا کہ ’بچوں کے والدین کے تحفظات دور کرنے کے لیے حکومت نے کیا کیا ہے؟‘

وزیراعظم سے مخاطب ہوتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’آپ نے عدالت کا حکم پڑھ لیا ہے۔ آپ پاور میں ہیں۔ آپ کی حکومت ہے۔‘

وزیراعظم کی عدالت میں حاضری کے بعد عدالت نے سماعت چار ہفتے کے لیے ملتوی کر دی۔

سماعت کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں بتایا کہ وزیراعظم عمران خان نے عدالت کو چار ہفتوں میں آئین کے تحت ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا یقین دلایا ہے۔

فواد چوہدری نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ایک بار پھر عمران خان نے ثابت کیا ہے کہ وہ قانون اور عدالتوں کے احترام میں کس قدر آگے ہیں۔

انہوں نے کہا: ’صبح ساڑھے نو بجے عدالت نے حکم دیا اور وہ سیدھا سپریم کورٹ پہنچے۔‘

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ’ جو معاملہ ہے بچوں کی شہادت کا، تو ظاہر ہے کہ پاکستان کے ہر شہری کا دل رنجیدہ ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’ہماری مخالف پارٹی مسلم لیگ ن اس وقت برسر اقتدار تھی، ہمارے لیے بڑا آسان تھا کہ ہم ان پر الزام عائد کرتے، لیکن ہم پاکستان کی قومی وحدت کو دیکھتے ہیں۔ یہ لڑائی ذاتوں سے بڑھ کر ہے۔‘

بقول فواد چوہدری: ’اس کے بجائے دوسرا راستہ اختیار کیا گیا، اپوزیشن کی تمام جماعتیں اکٹھی ہوئیں اور نیشنل ایکشن پلان بنایا، جس کے پیچھے پوری قوم کھڑی ہوئی۔ اس وقت حالات ایسے تھے کہ آرمی کورٹس بنانی پڑیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر پاکستان میں جمہوریت نارمل ہوئی ہے تو یہ نیشنل ایکشن پلان کی وجہ سے ہوئی، جس میں پاکستان کی سیاسی قیادت کو بھی کریڈٹ دینا بنتا ہے۔‘

اس موقع پر وزیر داخلہ شیخ رشید نے بتایا کہ عدالت نے چار ہفتوں کا وقت دیا ہے، وزیراعظم نے تمام صورتحال پیش کی ہے اور یہ یقین دلایا ہے کہ چاہے اس میں وزیر داخلہ ہو، ہائر ایجنسی کے لوگ ہوں، جو بھی ذمہ دار ہوں، آئین کے تحت کارروائی کا یقین دلایا ہے۔

یاد رہے 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے ورسک روڈ پر واقع آرمی پبلک سکول پر شدت پسندوں کی جانب سے حملہ کیا گیا تھا، جس میں سکول اساتذہ اور پرنسپل سمیت 140 بچے جان سے چلے گئے تھے۔ اس واقعے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی تھی۔

بدھ (10 نومبر کو) سپریم کورٹ میں سانحہ آرمی پبلک سکول پر ازخود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں ہوئی، جہاں اٹارنی جنرل عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے۔

تقریبا 20 منٹ کی آج کی سماعت میں چیف جسٹس گلزار احمد نے ان سے استفسار کیا کہ ’کیا وزیراعظم نے عدالتی حکم پڑھا ہے؟‘

اٹارنی جنرل خالد جاوید نے جواب دیا کہ ’وزیراعظم کو عدالتی حکم نہیں بھیجا تھا۔ انہیں عدالتی حکم سے آگاہ کروں گا۔‘

اس پر چیف جسٹس کا اٹارنی جنرل سے کہا کہ ’یہ سنجیدگی کا عالم ہے؟ چیف جسٹس نے پھر ریمارکس دیے کہ ’وزیراعظم کو بلائیں ان سے خود بات کریں گے، ایسے نہیں چلے گا۔‘

گذشتہ ماہ 20 اکتوبر کوسماعت کے دن اٹارنی جنرل عدالت میں پیش نہیں ہوئے تھے، جس پر سپریم کورٹ نے  اٹارنی جنرل کو والدین کے مطالبے پر ضروری اقدامات کرنے کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ وہ دو ہفتے بعد ذاتی حیثیت میں پیش ہو کر عدالت کو اقدامات سے آگاہ کریں۔

عدالت نے گذشتہ سماعت میں اٹارنی جنرل سے ذمہ داران کو سزاؤں کے حوالے سے اقدامات کی تفصیل طلب کی تھیں۔ سانحہ اے پی ایس والدین کا مطالبہ تھا کہ اس وقت کے اعلی عسکری و سیاسی حکام کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔

ابھی واضح نہیں کہ اس عدالتی حکم پر حکومت کا ردعمل کیا ہوگا۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ دراصل میں تو کارروائی اوپر سے شروع ہونی چاہیے تھی۔ ’چوکیدار اور سپاہیوں کے خلاف کارروائی کر دی گئی۔ اوپر والے تنخواہیں اور مراعات لے کر چلتے بنے۔‘‏

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

والدین کے وکیل امان اللہ کنرانی نے عدالت کو بتایا کہ حکومت ٹی ایل پی کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے۔ قصاص کا حق والدین کا ہے ریاست کا نہیں، ریاست سمجھوتہ نہیں کرسکتی۔‘

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اے پی ایس کا واقعہ سکیورٹی کی ناکامی تھی۔

چیف جسٹس  گلزار احمد نے استفسار ‏کیا کہ آیا سابق آرمی چیف اور دیگر ذمہ داران کے خلاف مقدمہ درج ہوا۔ اس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سابق آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف انکوائری رپورٹ میں کچھ نہیں۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے پوچھا کہ ملک میں اتنا بڑا انٹیلی جنس نظام ہے، اربوں روپے اس پر خرچ ہوتے ہیں۔ انٹیلی جنس پر اتنا خرچ ہو رہا ہے لیکن نتائج صفر ہیں۔

جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیئے کہ سب سے نازک اور آسان ہدف سکول کے بچے تھے۔ ’یہ ممکن نہیں کہ دہشت گردوں کو اندر سے سپورٹ نہ ملی ہو۔‘

جسٹس قاضی امین نے ریماکس میں کہا کہ کیا اصل ملزمان تک پہنچنا اور پکڑنا ریاست کا کام نہیں؟

جس کے بعد عدالت نے سماعت میں وقفہ کر دیا کہ وزیراعظم آئیں گے تو سماعت دوبارہ شروع ہوگی۔ جس پر اٹارنی جنرل عدالتی ہدایات لے کر وزیراعظم آفس روانہ ہو گئے تھے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان