کراچی کے بوہری بازار میں 1987 میں دھماکہ خیز مواد سے لدی دو گاڑیوں کے دھماکے میں 70 افراد جانیں کھو بیٹھے اور 300 زخمی ہوئے۔ یہ حادثہ پاکستان کے سب سے بڑے مفت ہسپتال کی بنیاد بنا۔
کہانی دلچسپ ہے۔ اس حادثے نے اس بڑے شہر کے ہسپتالوں کی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کی صلاحیت کی قلعی کھول دی۔ ڈاکٹر عبدالباری نے وہ حال دیکھا جب زخمیوں کے لیے بستر نہیں تھے اور ان کا علاج فرش پر کیا گیا۔ یہیں سے بلڈ بینک اور پھر انڈس ہسپتال کی داغ بیل ڈالی گئی۔
کراچی کورنگی کے علاقے میں قائم انڈس ہسپتال پاکستان کا واحد نجی ہسپتال ہے جو خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کو صحت کی مکمل مفت سہولیات فراہم کرتا ہے۔
سال 2007 میں قائم ہونے والے اس فلاحی ہسپتال نے اپنے سترہ سالوں میں ترقی کی کئی منازل طے کی ہیں۔ یہ ابتدا میں 150 بستروں پر مشتمل تھا اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ تعداد بڑھ کر تین سو تک پہنچ گئی۔
اب انڈس ہسپتال کی نئی ایمرجنسی عمارت کا افتتاح ہو گیا ہے۔ نئی عمارت کے ساتھ، انڈس ہسپتال کی استعداد 300 سے بڑھ کر 1380 بستروں تک پہنچ جائے گی۔ یہ اسے پاکستان کے سب سے بڑا مفت علاج فراہم کرنے والا ہسپتال بنا دے گا۔
اس ہسپتال میں کاغذ کا استعمال پہلے سے ختم کر دیا گیا ہے اور اکثر کام کمپیوٹرازڈ ہیں۔ نئے ہسپتال میں شمسی توانائی کا بندوبست بھی کیا گیا ہے جس سے یہ ماحول دوست بھی بن جائے گا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہسپتال کو توسیع دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی انٹرویو میں انڈس ہسپتال کے روح رواں، بانی و صدر ڈاکٹر عبدالباری نے بتایا کہ ’کراچی، سندھ میں مریضوں کی تعداد میں ہوش ربا اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جس میں بنیادی امراض اور وائرل انفیکشنز سرفہرست ہیں، لیکن بدقسمتی سے پاکستان کا پرائمری کیئر کا نظام بہت کمزور ہے۔ کہیں طبی سہولیات کا فقدان تو کہیں مہنگی ادویات علاج معالجے میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں۔
’پرائمری ہیلتھ کئیر انتہائی اہمیت کی حامل ہے چونکہ کسی بھی مرض کا علاج اور اس کی بروقت تشخیص کسی بھی فرد کو اس مرض کی پیچیدگی سے محفوظ بناتی ہے۔‘
ڈاکٹر باری کا کہنا تھا کہ مقامی سطح پر بنیادی ہیلتھ کیئر کے ابتر نظام کے باعث ہسپتالوں میں رش بڑھنے لگا ہے جس میں روزمرہ کی تعداد میں دو ہزار کی تعداد میں مریض انڈس ہسپتال کا رخ کرتے ہیں جن میں بڑی تعداد بنیادی بیماریوں سے متاثرہ افراد کی ہوتی ہے۔
کراچی میں قائم انڈس ہسپتال میں آنے والے مریضوں کا تعلق اندرون سندھ، بلوچستان، پنجاب اور خیبرپختونخوا سمیت پاکستان بھر سے ہے اور اس تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔
ایک دن کا خرچہ 5 کروڑ روپے
انڈس ہسپتال کے نئے منصوبے کے تحت او پی ڈی کی سالانہ گنجائش 430,000 افراد سے بڑھا کر 120,000 کر دی جائے گی اور ایمرجنسی سہولیات دو سے پانچ لاکھ مریضوں تک بڑھائی جائیں گی۔
نیا بڑا ہسپتال 20 ایکڑ کے بڑے رقبے پر تعمیر کیا جا رہا ہے اور یہ سب مخیر افراد کی مدد اور عطیات سے بنایا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر عبدالباری کے مطابق یہاں آنے والوں سے یہ نہیں پوچھا جاتا کہ آپ امیر ہیں یا غریب، بس ان سب کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔
ہسپتال کے اخراجات کے لیے اندرون و بیرون ملک سے عطیات اکٹھے کرنے کی مہم سارا سال چلتی رہتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کورنگی سے علاج کے لیے آئے ایک شہری شاہد علی نے بتایا کہ وہ دیگر ہسپتالوں، خاص کر سرکاری ہسپتال میں پرچیاں بنا بنا کر تھک گئے تھے اس لیے یہاں آتے ہیں۔
ایک اور شہری جو اپنی والدہ کو لے کر انڈس ہسپتال آئے تھے، نے کہا کہ پہلے تو دیگر ہسپتالوں میں بستر نہیں ملتا اگر مل جائے تو ادویات کا مسئلہ ہوتا ہے۔ ’دن میں ستر ہزار روپے خرچہ ہو جاتا ہے، یہ 35 ہزار تنخواہ والا کیسے برداشت کرے۔‘
ہسپتال میں علاج معالجے کا کیا طریقہ کار ہے؟
ڈاکٹر عبدالباری کے مطابق: ’ہسپتال کو بین الاقوامی طرز پر بنایا گیا ہے۔ نئی ایمرجنسی عمارت میں مختلف ڈپارٹمنٹ بنائے گئے ہیں جن میں مریضوں کو سب سے پہلے ٹرائیج روم میں لے کر جاتے ہیں۔ وہاں مریض کا معائنہ کیا جاتا ہے جس کے بعد تعین ہوتا ہے کہ آیا اسے ہسپتال میں داخل ہونا یا نہیں اور کس طرح کا علاج کرنا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں آنے والے مریض کا پورا ڈیٹا ہمارے پاس ریکارڈ میں آ جاتا ہے اور یہ ریکارڈ ہر سسٹم میں موجود ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس ہسپتال کی نئی عمارت جدت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار ہوئی ہے جہاں عالمی معیار کی لیبارٹری نیٹ ورکنگ سسٹم موجود ہے جن کا مجموعی خرچ 52 ارب روپے ہے۔
پاکستان کا واحد ہسپتال جسے سارک ممالک میں ایکریڈشن کا اعزاز حاصل ہوا
بقول ڈاکٹر عبدالباری کے: ’انڈس ہسپتال بلڈ سینٹر کراچی بلڈ بینکنگ میں امریکی معیارات کے ساتھ AABB ایکریڈیشن حاصل کرنے والا جنوبی ایشیا کا پہلا ہسپتال بن گیا ہے۔ یہ منظوری پاکستان میں خون کی حفاظت کے لیے ایک اہم سنگ میل کی نشاندہی کرتی ہے۔
’یہ کامیابی نہ صرف انڈس ہسپتال ہیلتھ نیٹ ورک (IHHN) کی مفت معیاری دیکھ بھال فراہم کرنے کے عزم کی عکاسی کرتی ہے بلکہ خطے میں بلڈ بینکنگ کے لیے ایک نیا معیار بھی قائم کرتی ہے۔ یہ کامیابی صحت، معاشیات اور بنیادی ڈھانچے میں پاکستان کے چیلنجز کے تناظر میں خاص طور پر قابل ذکر ہے۔‘
ڈاکٹر عبدالباری کا کہنا ہے کہ اگر حکومت صحت کے مسائل پر توجہ دے، یعنی صاف پینے کا پانی اور دیگر سہولتیں فراہم کر دے تو ’ہمیں یہ ہسپتال بند کرنے پڑ جائیں اور میں یہیں چاہتا ہوں کہ ایک دن ایسا ہو۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہم معیاری علاج کو یقینی بناتے ہیں اور اس ہسپتال کو ایسا بنائیں گے کہ اپنا علاج بھی یہیں کریں۔
منتظمین کے خیال میں یہ منصوبہ پاکستان میں صحت کے شعبے میں ایک انقلابی قدم ثابت ہوگا اور لاکھوں لوگوں کی زندگیوں پر مثبت اثر ڈالے گا۔