اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی رپورٹ کے مطابق افغان طالبان مخالف گروپ ’افغانستان فریڈم فرنٹ‘ (اے ایف ایف) نامی تنظیم کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔
رواں ماہ اقوام متحدہ کی افغانستان کے حوالے سے جاری سہ ماہی رپورٹ میں بتایا گیا کہ داعش خراسان کے علاوہ افغان طالبان کو اے ایف ایف اور نیشنل ریزسٹنٹ فرنٹ (این آر ایف) کی مخالفت کا بھی سامنا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق مئی 2024 سے اکتوبر 2024 تک اے ایف ایف نے افغان طالبان پر 39 حملے کیے ہیں جبکہ این آر ایف نے ان چھ مہینوں میں مجموعی طور پر 108 حملے کیے ہیں۔
سکیورٹی کونسل کی رپورٹ کے مطابق اے ایف ایف ’ہٹ اینڈ رن‘ یعنی حملہ کر کے فرار ہونے والے طریقہ کار اپنا رہے ہیں۔
اسی رپورٹ کے مطابق یہ تنظیم افغان طالبان پر گھات لگا کر حملے اور نشانہ بنا کر حملے جیسی کارروائیاں کر رہی ہے۔
تاہم رپورٹ کے مطابق اے ایف ایف اور این آر ایف افغان طالبان کے لیے بڑا چیلنج نہیں ہے کیونکہ دونوں تنظیموں نے افغانستان کے کسی علاقے پر قبضہ نہیں کیا ہے۔
شدت پسند تنظیموں کی کارروائیوں کے اعداد و شمار مرتب کرنے والے ادارے ساؤتھ ایشیا ٹیررزم پورٹل کے مطابق اے ایف ایف نے اگست 2021 سے دسمبر 2024 تک 73 حملوں میں افغان طالبان کے 200 افراد قتل کیے اور 130 زخمی کیے ہیں۔
تاہم ساؤتھ ایشیا ٹیررزم پورٹل کے مطابق اے ایف ایف دعویٰ کرتی ہے کہ گذشتہ دو سالوں میں تنظیم نے 230 حملے کیے ہیں اور اس میں افغان طالبان کے 600 افراد کی جان گئی ہے۔
طالبان نے اس تنظیم کے بارے میں اب تک کوئی بیان نہیں دیا ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو نے افغان طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد سے ردعمل جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا، تاہم ان کا جواب موصول نہیں ہوا۔
اے ایف ایف تنظیم کیا ہے؟
ساؤتھ ایشیا ٹیررزم پورٹل کے مطابق افغانستان فریڈم فرنٹ سابق افغان نیشنل سکیورٹی فورس کے اہلکاروں پر مشتمل تنظیم ہے، جو طالبان کی حکومت گرانے اور افغانستان میں ایک خود مختار حکومت قائم کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔
اے ایف ایف نے 10 دسمبر کو ورلڈ ہیومن رائٹس ڈے پر جاری بیان میں بتایا کہ وہ انسانی حقوق، آزادی اور جمہوریت کے لیے بغیر کسی نسلی امتیاز کے افغان طالبان کے خلاف لڑیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس تنظیم کی سربراہی ساؤتھ ایشیا ٹیررزم پورٹل کے مطابق سابق وزیر دفاع اور چیف آف جنرل سٹاف جنرل یٰسین ضیا کر رہے ہیں جبکہ تنظیم کے سیاسی کونسل کی سربراہی داؤد نجی کر رہے ہیں۔
داؤد نجی کا تعلق ہزارہ کمیونٹی سے ہے اور وہ بی بی سی ورلڈ سروس کی فارسی سروس میں صحافی رہ چکے ہیں۔
وہ افغانستان کے صوبہ غزنی میں پیدا ہوئے ہیں اور بلخ یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کر کے وہیں پر پروفیسر رہے۔
اس کے بعد داؤد نجی 2000 میں پاکستان کے شہر کوئٹہ متنقل ہوئے اور افغان پناہ گزین بچوں کے لیے البیرونی ایلیمنٹری سکول کی بنیاد رکھی۔
انہوں نے 2002 میں بطور مقامی رپورٹر قندھار اور ہلمند میں کام شروع کیا۔ وہ 2006 میں لندن منتقل ہوئے اور 2009 میں بی بی سی فارسی آن لائن کے ایڈیٹر بن گئے۔
ساؤتھ ایشیا ٹیررزم پورٹل کے مطابق اے ایف ایف افغانستان کے صوبہ بلخ، بغلان، تخار اور کاپیسہ میں کارروائیاں کرتی ہے، تاہم تنظیم کے مطابق اس نے پشتون آبادی والے علاقوں قندھار اور لغمان میں بھی کارروائیاں کی ہیں۔
نومبر 2024 میں ’آئی کرڈ‘ نامی میڈیا ادارے کو ایک انٹرویو میں داؤد نجی نے بتایا کہ ’ہم اپنی آزادی، خودمختاری اور حقوق کے لیے لڑیں گے اور مستقبل میں افغان طالبان پر بڑے حملے کریں گے۔‘
انہوں نے بتایا تھا: ’ہم نے حالیہ دنوں میں کابل ملٹری ایئرپورٹ پر حملہ کیا تھا اور ہماری گوریلا فورسز ایئرپورٹ میں طالبان کے ساتھ لڑی تھیں۔ ہم مسلح جدوجہد جاری رکھیں گے اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے پر مجبور کریں گے۔‘
اے ایف ایف شمالی اتحاد سے تعلق رکھنے والے احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود کی تحریک نیشنل ریزسٹنٹ فرنٹ کے ساتھ مشترکہ کارروائیاں بھی کرتی ہے۔
احمد شاہ مسعود افغانستان کے سابق وزیر دفاع بھی رہ چکے ہیں۔ وہ طالبان کے پہلے دور حکومت میں افغان طالبان کی مخالف تحریک کی سربراہی کر رہے تھے اور انہیں 2001 میں خود کش حملے میں قتل کر دیا گیا تھا۔
اگست 2021 میں جب طالبان نے پورے افغانستان پر قبضہ کیا تو آخری مزاحمت پنج شیر وادی سے ہو رہی تھی اور مزاحمتی فورس کی سربراہی احمد مسعود کر رہے تھے۔
اس کے بعد ستمبر 2021 میں طالبان نے پنج شیر پر قبضہ کرنے کا اعلان کردیا تھا، تاہم این آر ایف اب بھی طالبان کے خلاف مزاحمت اور ان پر حملے کر رہی ہے۔
’حملے طالبان کے لیے چیلنج‘
ڈاکٹر سید عرفان اشرف پشاور یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں پروفیسر اور شدت پسندی پر تحقیقی مقالے لکھ چکے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’افغانستان میں میڈیا کو آزادی نہیں ہے اور زیادہ تر صحافی بیرون ملک منتقل ہو چکے ہیں، لہذا زمینی حقائق نکالنا مشکل ہے، تاہم گذشتہ کچھ عرصے سے یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ افغان طالبان کے خلاف مزاحمت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اس کی ایک شکل اے ایف ایف کی صورت میں ہے۔‘
عرفان اشرف کے مطابق: ’گذشتہ دنوں افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے اہم رہنما خیل الرحمٰن حقانی کو مارا گیا۔ داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کی ہے، تاہم یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے اور افغان طالبان کے بیانات سے لگتا ہے کہ ان کو بھی یہ ادراک ہو گیا ہے۔‘
انہوں نے بتایا: ’افغان طالبان افغانستان کو مدرسے کی طرح چلا رہے ہیں۔ خواتین کی تعلیم پر پابندی ہے اور کسی دوسرے فریق کو حکومت میں شامل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’فریڈم فرنٹ سابق افغان نیشنل آرمی کے لوگوں پر مشتمل ہے، جن کے رہنما یا تو تاجکستان یا بیرون ممالک میں موجود ہیں اور مزاحمت کر رہے ہیں اور جتنے حملے اب تک ہوئے ہیں تو افغان طالبان کے لیے یہ ضرور ایک چیلنج ہے۔‘
شام کی مثال دیتے ہوئے عرفان اشرف نے بتایا کہ وہاں بھی ایسی صورت حال بنی تھی اور کچھ لوگوں نے مزاحمت شروع کی، جس میں کرد آبادی بھی شامل ہے، جو پراگریسیو سوچ رکھتے ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’فریڈم فرنٹ والے بھی پراگریسیو سوچ رکھنے والے ہیں اور افغان طالبان کی پالیسیوں سے متفق نہیں ہیں اور جب اس سوچ کو دبایا جاتا ہے تو پھر بات تشدد کی طرف بڑھتی ہے۔‘
بی بی سی افغان سروس سے منسلک سابق ایڈیٹر اسماعیل میاں خیل، جو طالبان کے آنے تک افغانستان کے سرکاری میڈیا ادارے ریڈیو ٹیلی ویژن کے سربراہ تھے، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جب سے طالبان افغانستان آئے ہیں اور حکومت بنائی ہے تو اس سے مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔‘
اسماعیل نے بتایا کہ ’طالبان کے خلاف اقتصادی، عسکری اور سیاسی مزاحمت میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’افغانستان کی دیگر سیاسی قوتیں طالبان سے یہ امید نہیں رکھتی تھیں، جو طالبان اب کر رہے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ ان کے خلاف مزاحمت بڑھے گی۔‘