فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدور

صنعتی انقلاب نے زمینداری نظام کو ختم اور بورژوا اور سرمایہ دارانہ طبقے کی تشکیل کی، جس سے ملک نے ترقی کی، لیکن اس ترقی میں مزدوروں کی قربانیوں کا ذکر نہیں کیا جاتا۔

30 ​​اپریل 2024 کی اس تصویر میں لاہور میں لوہے کے کارخانے میں مزدور کام کر رہے ہیں (اے ایف پی)

صنعتی انقلاب نے ایک جانب زمینداری نظام کو ختم کیا اور بورژوا اور سرمایہ دارانہ طبقے کی تشکیل کی، جس کی وجہ سے ملک نے ترقی کی، لیکن اس کو واضح نہیں کیا جاتا کہ اس ترقی میں مزدوروں کی قربانیاں بھی شامل تھیں۔

پہلا صنعتی انقلاب انگلستان میں آیا تھا، جس نے معاشرے کو زرعی سے صنعتی بنایا، کسانوں کو مزدوروں کا درجہ دیا اور بڑے شہروں کی آبادی بڑھی۔ جب صنعتی پیداوار میں اضافہ ہوا تو اس کے لیے منڈیوں کی تلاش میں تجارتی کمپنیاں ایشیا اور افریقہ پہنچیں۔ اس نے کلونیل ازم کو جنم دیا اور کالونیز کی صنعتوں کو ختم کر کے یورپی پیداوار کو فروغ دیا گیا۔

اس سارے عمل میں فیکٹری میں کام کرنے والے مزدوروں کی محنت و مشقت کا ذکر کم ہی ہے۔ یہ 18 سے 19 گھنٹے کام کرتے تھے۔ کچی آبادیوں میں رہتے تھے۔ آلو ان کی غذا تھی۔ سماجی طور پر یہ بےانتہا پسماندہ تھے۔ ان کی کئی نسلوں نے جدوجہد کے ذریعے اپنے حقوق حاصل کیے، مگر تاریخ نے انہیں گمنام رکھا۔

فیکٹری میں کام کرنے والے مزدوروں کے بارے میں جو معلومات ملی ہیں، وہ بےانتہا دردناک ہیں۔ ان مزدوروں نے غربت و افلاس اور محرومی کی زندگی گزاری۔ معاشرے میں ہر طبقہ عزت و وقار سے محروم تھا، لیکن موجودہ دور میں مورخ ورکنگ کلاس کی تاریخ لکھ کر معاشرے کی ترقی میں ان کی محنت و مشقت کو سامنے لا رہے ہیں۔

فرانس کے ایک مورخ نے سلک کی ملوں میں کام کرنے والی لڑکیوں کے بارے میں تحقیق کی۔ اس کے مطابق مل کے ایجنٹس گاؤں اور دیہات میں جاتے تھے جہاں بےروزگار کسانوں کی بڑی تعداد آباد تھی۔ یہ 13، 14 سال کی لڑکیوں کو چار سال کے معاہدے پر فیکٹریوں میں ملازمت دیتے تھے۔

یہ لڑکیاں 12، 13 گھنٹے تک کام کرتی تھیں۔ فیکٹریوں کے ہال میں سخت حبس رہتا تھا اور تازہ ہوا کی کوئی گنجائش نہیں تھی، جس کی وجہ سے یہ مزدور لڑکیاں سانس کی بیماری میں مبتلا ہو جایا کرتی تھیں اور ان میں سے اکثر کو دق کا مرض بھی ہو جاتا تھا۔ کام کے دوران انہیں کئی گھنٹے پانی میں بھی کھڑا ہونا پڑتا تھا، جس کی وجہ سے ان کے پاؤں پر ورم آ جاتا تھا۔

یہ فیکٹری کے ہوسٹل میں رہتی تھیں، جہاں کھانے کو ناقص غذا ملتی تھی۔

مصنف کا کہنا ہے کہ چار سال بعد اپنے گھر جانے کے بجائے ان کے جنازے قبرستان جاتے تھے، اس لیے صنعتی انقلاب جہاں بھی آیا سرمایہ داری کے ساتھ ساتھ یہ مزدوروں کے لیے غربت اور افلاس لایا۔ انڈیا میں برطانوی عہد میں کئی بڑے شہروں میں صنعتی فیکٹریاں قائم ہوئیں۔ ان میں بمبئی شہر بڑا صنعتی مرکز بن گیا۔

بمبئی کے مزدوروں کی حالت پر راج نارائن چندروکر نے اپنی کتاب History, Culture and the Indian City میں تفصیل لکھی۔ اس کی تحقیق کے مطابق 1930 کی دہائی میں بمبئی میں بڑی تعداد میں کاٹن ملوں کا قیام عمل میں آیا۔ ان میں کام کرنے کے لیے بمبئی کے غریب دیہات اور قصبوں سے مزدور آئے۔ یہ صحت مند تھے۔ تازہ ہوا میں رہتے تھے لیکن بےروزگاری نے انہیں مجبور کیا کہ وہ کاشت کاری کا اپنا آبائی پیشہ چھوڑ کر فیکٹری میں مزدوری کریں۔

ان میں سے زیادہ تر اکیلے آتے تھے اور اپنے بیوی بچوں کو گاؤں میں ہی چھوڑ آتے تھے۔ بمبئی کا شہر ان کے لیے اجنبی تھا۔ فیکٹری کی جانب سے ایک ٹھیکیدار ہوا کرتا تھا جو ان کو ملازمت دلاتا تھا۔ یہ اپنے گاؤں کی برادری میں گھل مل جاتے تھے۔ رہائش کے لیے صرف ایک کمرہ ہوتا تھا جو کھولی کہلاتا تھا۔ اسی میں یہ مل کر رہا کرتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فیکٹری کے مزدوروں کو ہڑتال کی اجازت نہیں تھی، نہ وہ اپنے معاوضے میں اضافے کا مطالبہ کر سکتے تھے۔ کوئی انشورنس نہیں ہوتی تھی، نہ ہی حادثے سے اور بیماری کی صورت میں علاج کی کوئی سہولت تھی۔ فیکٹری کے یہ مزدور دو حصوں میں تقسیم تھے۔ ایک وہ جو مستقل تھے اور دوسرے عارضی، جنہیں کسی بھی وقت نکالا جا سکتا تھا۔

اگرچہ یہ مزدور بمبئی میں کام کرتے تھے مگر گاؤں میں اپنے خاندان اور گاؤں سے ان کا جذباتی تعلق رہتا تھا۔ یہ اپنی تنخواہ کا ایک حصہ پابندی سے منی آرڈر کے ذریعے اپنے خاندان کو بھیجتے تھے۔ گاؤں میں جب ان کے رشتےداروں میں شادی بیاہ ہوتا تھا یا قومی تہوار ہوتے تھے تو یہ ان میں ضرور شرکت کرتے تھے۔ خاص طور سے مون سون کے مہینے میں مزدوروں کی اکثریت کھیتی باڑی کے سلسلے میں گاؤں چلی جاتی تھی اور بمبئی ان سے خالی ہو جاتا تھا۔

ملوں کی وجہ سے اور مزدوروں کی رہائش کی وجہ سے شہر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا۔ ایک جانب امرا کی حویلیاں اور مکانات تھے تو دوسری جانب غریبوں کی کچی آبادیاں، جہاں نہ گندے پانی کی نکاسی کا کوئی نظام تھا اور نہ ہی پینے کا صاف پانی ملتا تھا۔ اپنے خاندان اور گھر سے دور رہنے کی وجہ سے مزدوروں میں شراب نوشی اور نشے کی عادتیں آ گئی تھیں۔

مزدوروں کی اس حالت زار کو اور ان کے حقوق کے لیے ٹریڈ یونینز کا قیام عمل میں آیا۔ خاص طور سے کمیونسٹ پارٹی نے مزدوروں کی تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، لہٰذا ٹریڈ یونین کی جانب سے ہڑتالوں کا سلسلہ بھی شروع ہوا جسے مل کے مالکوں نے پولیس، فوج اور اپنے غنڈوں کی وجہ سے کامیاب نہیں ہونے دیا۔

لیکن ہڑتالوں کا سلسلہ جاری رہا اور مل مالک اس پر مجبور ہوئے کہ ان کے چند مطالبات کو منظور کریں۔

اس تناظر میں جب پاکستان میں صنعتی مزدوروں کا حال دیکھتے ہیں تو ہم انہیں بھی حقوق سے محروم پاتے ہیں۔ ٹریڈ یونین کے مقابلے کے لیے مل کے مالک اپنی پاکٹ یونین بناتے ہیں۔ موجودہ دور میں ٹریڈ یونینز پر پابندیاں ہیں، جس کی وجہ سے مزدور کوئی ہڑتال کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے حقوق کے لیے انہیں آواز اٹھانے کی اجازت ہے۔ سرمایہ دارانہ اور محروم طبقوں میں بٹا ہوا ہمارا معاشرہ عزت و وقار کے درجات سے محروم ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ