اسلام آباد ہائی کورٹ نے ملک بھر میں فائر وال کی تنصیب اور انٹرنیٹ سلو ڈاؤن سے متعلق کیس میں وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 26 اگست تک جواب طلب کر لیا ہے۔
منگل کو سماعت کے دوران درخواست گزار حامد میر کی وکیل ایمان مزاری عدالت میں پیش ہوئیں۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا ’آج کل انٹرنیٹ سست ہو گیا ہے؟ اس سے پہلے کہ ہم کوئی حکم جاری کریں یہ بتائیں کہ دراصل ہو کیا رہا ہے؟‘
چیف جسٹس نے کہا ’اس کی کون سی متعلقہ وزارت ہے تاکہ پتہ چلے کہ انٹرنیٹ سپیڈ میں کمی کی وجہ کیا ہے؟ اس سے متعلق وزارت آئی ٹی سے پوچھیں یا پی ٹی اے سے؟‘
اس پر وکیل درخواست گزار ایمان مزاری نے جواب دیا ’پی ٹی اے اس معاملے پر خاموش ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا ’سیکریٹری یا جوائنٹ سیکریٹری میں سے کس کو بلائیں؟‘
وکیل نے جواب دیا کہ ’ان کی متعلقہ وزارتوں کے اعلی عہدے داروں کو طلب کرنے کی استدعا ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا اسے بلائیں گے جسے اس معاملے کا علم ہو اور جو عدالت کو اس پر بریفنگ دے سکے۔
بعد ازاں عدالت نے پی ٹی اے اور وزارت آئی ٹی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 26 اگست تک ملتوی کر دی ہے۔
مقدمے کا پس منظر
صحافی اور اینکر پرسن حامد میر کی جانب سے وکیل ایمان مزاری نے 16 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں ’شہریوں کے بنیادی حقوق متاثر کرنے والی فائر وال کی تنصیب کو روکنے‘ کی استدعا کی گئی تھی۔
درخواست گزار نے فائر وال کی تنصیب ’سٹیک ہولڈرز کی مشاورت اور بنیادی حقوق کے تحفظ سے مشروط قرار‘ دینے کی استدعا کی گئی ہے، جبکہ انٹرنیٹ تک رسائی کو آئین کے تحت بنیادی انسانی حقوق میں شمار کرنے کا کہا گیا ہے۔
درخواست میں پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے)، سیکریٹری انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی)، سیکریٹری داخلہ و کابینہ اور وزارت انسانی حقوق کو فریق بنایا گیا ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے گذشتہ روز عدالت عالیہ کے رجسٹرار کے اعتراضات کے ساتھ درخواست سماعت کی تھی۔
سماعت میں چیف جسٹس نے کہا کہ ’تین اعتراضات کو جوڈیشل سائیڈ پر دیکھیں گے، جبکہ چوتھا اعتراض درخواست میں نامناسب زبان کے استعمال سے متعلق ہے۔‘
اس پر وکیل ایمان مزاری کا کہنا تھا کہ انہوں نے صرف ایکس کی پوسٹ ساتھ لگائی ہے جس میں نامناسب زبان استعمال نہیں کی گئی۔ انہوں نے سماعت اگلے روز مقرر کرنے کی استدعا کی۔
بعد ازاں عدالت نے درخواست پر اعتراضات دور کر دیے اور کیس منگل (آج) کے لیے مقرر کرنے کی ہدایت کی۔
اس سے قبل وزیر مملکت برائے آئی ٹی شزہ فاطمہ خواجہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان میں فائر وال کی تنصیب سے لا علمی کا اظہار کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیر مملکت نے کہا تھا کہ انہیں فائر وال کی تنصیب سے متعلق علم نہیں ہے تاہم پی ٹی اے کو اس سے متعلق معلوم ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ حکومت سائبر سکیورٹی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے اپنے ’ویب مینجمنٹ سسٹم‘ کو اپ گریڈ کر رہی ہے۔
شزہ فاطمہ نے اس کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا تھا ’ملک پر سائبر سکیورٹی حملے دیکھ لیں، بین الاقوامی سطح پر بھی یہ حملے ہو رہے ہیں۔ جس طرح یہ تھریٹس بڑھ رہی ہیں ان سے نمٹنے کے لیے حکومت کے پاس بہتر صلاحیت ہونا چاہیے۔
’وزارت نے پی ٹی اے سے ملک میں انٹرنیٹ سلو ڈاون سے متعلق رپورٹ طلب کی ہے اور متعلقہ اداروں کو کہا ہے کہ گذشتہ دو ہفتوں میں ڈیٹا ٹریفک پر کیا اثرات پڑے ہیں، وہ معلومات فراہم کی جائیں۔‘
دوسری جانب سینیٹ (ایوان بالا) کی انفارمیشن و ٹیکنالوجی کمیٹی نے بھی ملک انٹرنیٹ و سوشل میڈیا ایپ لیکیشنز سلو ڈاؤن ہونے اور اس سے ہونے والے نقصانات کی رپورٹ طلب کر رکھی ہے۔
18 اگست 2024 کو ایک اور نیوز کانفرنس کے دوران وزیر آئی ٹی کہہ چکی ہیں کہ ملک میں انٹرنیٹ کی رفتار میں کمی میں کسی حکومتی ادارے کا کردار نہیں بلکہ یہ وی پی این کے زیادہ استعمال کے باعث ہو رہا ہے۔
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ وی پی این استعمال کرنے والے صارفین سی ڈی این کے بجائے براہ راست انٹرنیشنل سٹریم استعمال کرنا شروع کر دیتے ہین اور ایسے صارفین کی تعداد زیادہ ہونے کے باعث ڈاؤن لوڈنگ خصوصاً کم ہو جاتی ہے۔
’میں ایک مرتبہ پھر وضاحت کرنا اور بتایا چاہتی ہوں کہ ملک میں انٹرنیٹ کی رفتارمیں کمی سے حکومت پاکستان ی کسی حکومتی ادارے کا کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان نے ملک میں انٹرنیٹ بند کیا نہ اس کی رفتار میں کمی کی۔
وفاقی وزیر ک مزید کہنا تھا کہ ان کی وزارت انٹرنیٹ کی رفتار مزید بہتر بنانے کے لیے مسلمل کام کر رہی ہے اور کوششیں جاری ہیں کہ مستقبل میں ایسے مسائل کا سامنا نہ ہو سکے۔