وزیر مملکت برائے آئی ٹی شزہ فاطمہ نے بدھ کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو ’ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل‘ سے متعلق بتایا ہے کہ حکومت کی کوشش ہے کہ 14 اگست 2025 تک ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن یعنی ڈیجیٹل نیشنل آئی ڈی سے متعلق بنیادی ڈھانچہ متعارف کروا دیں۔
ڈیجیٹل نیشنل آئی ڈی ایک فزیکل قومی شناختی کارڈ کا متبادل ہے، جسے مختلف مقاصد مثلاً سرکاری لین دین، پاسپورٹ کی درخواستوں اور بینک اکاؤنٹس کھولنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
پاکستانی حکومت بھی اس سلسلے میں ’ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل‘ کے نام سے ایک قانون متعارف کروانا چاہتی ہے، جس کے تحت تمام پاکستانیوں کا ڈیٹا ایک ہی ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر دستیاب ہو گا۔
یہ بل رواں ہفتے 16 دسمبر کو ایوان میں پیش کیا گیا تھا، لیکن اسے منظوری نہ مل سکی۔ بعدازاں اسے مشاورت اور منظوری کے لیے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو بھجوا دیا گیا۔ کمیٹی نے دو روز اس بل پر بحث کی لیکن چیئرمین کمیٹی امین الحق نے بدھ کو مزید تجاویز کے لیے اسے مؤخر کر دیا۔ اب یہ بل قائمہ کمیٹی سے منظوری کے بعد ہی دوبارہ ایوان میں منظوری کے لیے پیش ہو گا۔
اس معاملے پر وزیر مملکت شزہ فاطمہ کہتی ہیں کہ ’چونکہ یہ قومی نوعیت کا معاملہ ہے، اس لیے چاہتے ہیں کہ تمام جماعتوں کے ساتھ مشاورت کے ساتھ بل پاس ہو۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ملکوں کو ڈیجیٹلائز کرنے میں 10 سے 20 سال لگ جاتے ہیں۔ ہمیں یہ بل بنانے میں نو مہینے لگے ہیں اور کوشش ہے کہ 14 اگست 2025 تک اس ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن سے متعلق بنیادی ڈھانچے متعارف کروا دیں۔‘
وزیر مملکت شزہ فاطمہ خواجہ نے کمیٹی میں بل کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’اس قانون سے ریڈ ٹیپ اور دیگر چیلنجز ختم ہوسکیں گے۔ بیوروکریٹس اور وزارتوں میں فائلوں کے پھنسنے والا رویہ ختم ہو گا۔ ہیلتھ سیکٹر میں اس نظام سے فائدہ ہو گا۔ کون سی بیماری کہاں پھیل رہی ہے، سب ایک کلک سے معلوم ہو گا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ایکسائز ڈیپارٹمنٹ، ایف بی آر، لائسنسنگ ڈیپارٹمنٹ، ایس ای سی پی اور سٹیٹ بینک سب اس سے منسلک ہوں گے۔ ڈیپ منصوبے کے لیے ورلڈ بنک نے 78 ملین ڈالر کا فنڈ دیا تھا، ہمارے پاس فنڈز ہیں جو اس نظام کو فوری موبلائز کریں گے۔‘
شزہ فاطمہ خواجہ نے مزید کہا کہ ’نیشنل ڈیجیٹل کمیشن میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی کو شامل کیا جائے گا کیونکہ یہ قومی کاز ہے۔ ڈیپ منصوبے کے تحت یہ قانون تیار کیا گیا جس کے تحت یہ نظام بنے گا، جہاں جہاں ڈیٹا بیس ہوگا اسے اس سے منسلک کیا جائے گا۔‘
ڈیجیٹل آئی ڈی سے سرویلنس کا خطرہ یا ڈیٹا لیک کا کتنا خوف؟
ایک کلک پر کسی بھی شخص سے متعلق تمام معلومات میسر ہونا، ڈیٹا لیک ہونے کی صورت میں ایک رسک بھی ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے شزہ فاطمہ نے جواب دیا کہ ’ڈیجیٹلائیزیشن سستا پراجیکٹ نہیں ہے۔ اس میں ڈالرز درکار ہوتے ہیں۔ چین کو 15 سال جبکہ انڈیا کو ڈیجیٹلائزیشن میں 24 سال لگے۔ ہم نے بل سے پہلے سب سے مشاورت کی ہے۔ اگر ہم اس ملک میں ڈیجیٹلائزیشن نہ کریں تو ہم پتھر کے زمانے کی طرف واپس چلے جائیں گے۔ ٹیکنالوجی کسی کا انتظار نہیں کرتی۔ اگر ہر کسی چیز کو سرویلنس کی نظر سے دیکھنا ہے تو ٹی وی گاڑیاں سب بند کریں اور پرانے دور کی طرف واپس چلے جائیں۔‘
عام پاکستانی کو ڈیجیٹل آئی ڈی کا کیا فائدہ ہو گا؟
اس سوال پر وزیر مملکت شزہ فاطمہ نے کہا: ’یہ بل بنیادی طور پر عام آدمی کی سہولت کے لیے ہی لایا گیا ہے۔ ایف بی آر الگ ڈیجیٹلائز کر رہا ہے، ایس ای سی پی اپنی جگہ کر رہا ہے جبکہ سٹیٹ بینک اپنی ڈیجیٹلایزیشن کر رہا ہے تو کیپٹل موبلائزیشن کے لیے ایک سینٹر پوائنٹ ضروری ہے۔ اگر ایک شخص نے ڈھابہ کھولنا ہے تو اسے اپنے کاغذات دستخط کروانے کے لیے 11 اداروں کے پاس جانا پڑتا ہے لیکن جب سب ادارے ایک ڈیجیٹل آئی ڈی سے منسلک ہوں گے تو یہ مسئلے نہیں رہیں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’میں نے خود دفتروں میں بیٹھ کر بین الاقوامی، مقامی اور قانونی ماہرین کے ساتھ بل ڈرافٹ کیا ہے۔ اگر کسی کو شک ہے تو ان میٹنگز کی تصاویر دکھا دیں گے۔‘
دوسری جانب چند کمیٹی اراکین نے بل پر اپنے تحفظات کا بھی اظہار کیا۔
رکن کمیٹی شرمیلا فاروقی نے کہا کہ ’پرسوں رات کو 10 بجے اس بل کا نوٹس آیا۔ آپ اتھارٹی اور دیگر چیزیں بنا رہے ہیں لیکن کسی کو اعتماد میں نہیں لیا۔ آپ چاہتے ہیں سب چیزوں کو ایک ادارے کے ماتحت کر دیں۔ آپ قانون بنانے جا رہے ہیں، روڈ میپ نہیں۔ آپ کی باتوں سے بھی کچھ واضح نہیں ہو رہا۔‘
دوسری جانب رکن کمیٹی عمر ایوب نے اعتراض اٹھایا کہ ڈیجیٹل نیشن پلان میں اتنی جلدی کیوں کی جا رہی ہے؟انہوں نے حکومت کو تجویز پیش کی کہ اس میں جلدی نہ کی جائے بلکہ ’ماہرین کو بلائیں اور مزید وقت لیں۔‘
اسی طرح رکن کمیٹی ارباب عالم نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’غیب سے یہ بل آیا، قومی اسمبلی میں پیش ہوا اور اگلے دن ہمیں نوٹس آیا۔ اگر یہ اتنا اہم بل ہے تو ایک دن میں تو اس پر کام نہیں ہوا۔ اتنے عرصے میں کمیٹی کو ایک بار بھی نہیں بتایا گیا کہ ہم اس بل پر کام کر رہے ہیں۔ اتنے اہم بل کو اگر اس طرح اچانک لایا جائے گا تو سب کو ہی شک ہو گا۔‘