مطلع یہ تھا کہ امریکہ نے ہمیں اقتدار سے نکالا ہے اور مقطع یہ ہے کہ امریکہ ہی ہمیں اڈیالہ سے نکالے گا۔ مطلع یہ تھا کہ ہم امریکی سازش کا شکار ہوئے اور مقطع یہ ہے کہ ٹرمپ کو آنے دو ایک بار، پھر دیکھنا تم لوگ، چاندنی دلوں تک نہ اتر جاوے تو کہنا۔
رجز یہ تھا کہ ہم کوئی تیرے غلام ہیں کہ جو تم کہو ہم وہی کریں اور عرضی یہ ہے کہ اب کے دسمبر میں تو ہجر کے پر بھی بھیگ گئے، ڈونلڈ ٹرمپ ! تم کب آؤ گے۔
مقدمہ یہ تھا کہ ہم سائفر کے گھائل ہیں، دور دیس سے ایک سائفر آیا اور ہماری خود مختاری کے دفتر لپیٹ دیے گئے اور عجز یہ ہے کہ اے اسی دور دیس کے ساکنو، کوئی خط ہی بھیجو، ٹکٹ کے پیسے نہیں ہیں تو بھلے بے رنگ ہی بھیج دو کہ میں اس کی ناؤ بنا کر منجدھار سے نکل آؤں۔
طنطنہ یہ تھا کہ ہمارے معاملات میں کوئی امریکی مداخلت کیوں کرے اور تجاہل یہ ہے کہ کوئی امریکی ہمارے معاملات میں کیوں مداخلت نہ کرے۔
رزمیہ یہ تھا کہ آئندہ کوئی ڈونلڈ لُو پاکستان کے داخلی معاملات میں دخل اندازی کی جرات نہ کرے اور طربیہ یہ ہے کہ رچرڈ گرینل کا ٹویٹ تو الھڑ ہواؤں کے ہاتھ بھیجا گیا پریم سندیسا ہے، جس نے من کا برہما شانت کر دیا ہے۔
جلال صوفیانہ نے بادلوں پر خواب کاشت کر دیے تھے کہ نکلو حقیقی آزادی کے لیے اور اب عالم شوق ایسا ہے کہ سب منڈیر سے لگے افق میں نظریں گاڑے کسی خط کی تلاش میں بیٹھے گنگنا رہے ہیں کہ کبوتر آ آ آ۔
دعویٰ شوق یہ تھا کہ اب کے بعد سمندر پار سے کوئی خط آئے گا، نہ کوئی کال آئے گی اور اب برخورداری نازو ادا سے اٹھلا رہی ہے کہ 25 دسمبر سے پہلے ایک کال آوے گی، پھر دسمبر گرم ہو جائے گا اور جون میں برفیں پڑیں گی، آنگن آنگن پھول کھلیں گے اور کوے نغمے گائیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کیا عہدِ طفولیت تھا، حدتِ آغوش سے صدا زمزمہ کرتی تھی: آرمی چیف قوم کا باپ ہوتا ہے۔ اب پاؤں زمین پر پڑے ہیں تو آبلوں نے ہجو کہنا شروع کر دی ہے۔
عشق کے بانکوں کی منادی تھی ہم مختار کل ہیں۔ نہ ہم سلیکٹڈ ہیں نہ کسی کے نکے۔ یہ صرف ہم ہیں، جو فیصلہ ساز ہیں۔ سال کے 12 موسم ہمارے دست ہنر کا اعجاز ہیں۔
اب نوحے الاپے جا رہے ہیں کہ ہم تو اس بندوبست میں برائے وزن بیت تھے۔ خواب کا واؤ معدولہ تھے۔ ہم تو ایسے ہی کھڑے تھے جیسے ’تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ‘۔
کل صحرا کے گھڑ سواروں کی طرح کلام کرتے تھے، ہاں ہم نے منشیات برآمد کیں اور جان ہم نے اللہ کو دینی ہے، اب ادائے بے نیازی سے کہتے ہیں ہم کیا جانیں رانا ثنا اللہ کیوں پکڑے گئے۔ جنہوں نے پکڑا، ان سے پوچھیں۔ ہم تو دہی کے ساتھ کلچہ کھا رہے تھے۔
شوخی کلام یہ ہے کہ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کی مکمل نفی کرتے ہیں اور عشق رفتہ کے قتیل ایسے کہ مذاکرات صرف اسی اسٹیبلشمنٹ سے کرنا چاہتا ہیں، جس کے سیاسی کردار کی یہ مکمل نفی چاہتے ہیں۔
مبالغہ قدیم زمانے کے شاعروں جیسا، کہ ہم نے ڈی چوک سے 278 لاشے اٹھائے اور یو ٹرن تیز گام جیسا، کہ نہیں ان کی تعداد شاید 12 تھی۔ تجاہل مگر درویشوں جیسا کہ تضادات کے بھنور میں آئے تو صدا لگائی: ’درجن بھی تو سینکڑوں ہوتے ہیں۔‘
ایسا نہیں کہ ان کے حریف دودھ کے دھلے ہیں، ایسا بھی نہیں کہ تضادات صرف ان ہی کے دامن سے لپٹے ہیں۔ کوچہ سیاست میں سبھی کا نامہ اعمال ملتا جلتا ہے۔ خوبیاں بھی اور خامیاں بھی۔
فرق مگر یہ ہے کہ باقیوں کے ہاں اپنی خامیوں کا کسی نہ کسی درجے میں ادراک موجود ہے لیکن یہ اپنے تضادات کے باوجود خود کو دنیا کا آخری حق پرست گروہ قرار دیتے ہیں اور ان کے خیال میں جو دوسری طرف ہے وہ باطل کا گماشتہ ہے۔ چور ہے، بے ایمان ہے، خائن ہے، زمین کا بوجھ ہے۔
گزرے وقتوں میں یہ مطلع کہتے تھے تب بھی ان کا دعویٰ تھا، نقیب صبح صداقت صرف وہ ہیں، اب یہ مقطع کہہ رہے، تب بھی ان کا دعویٰ ہے کہ شعور اور آگہی صرف ان کا زاد راہ ہے۔
ان کا دعویٰ ہے یہ کل بھی سچے تھے، یہ آج بھی راست گو ہیں۔ ان کا زعم ہے کہ یہ موقف بدل لیں تو سچ کروٹ لے کر ان سے لپٹ جاتا ہے۔ یہ یوٹرن لے لیں تو منزلیں ان کی طرف دوڑی چلی جاتی ہیں۔ ان کا گمان ہے کہ یہی دلیل ہیں اور یہی معیارِ حق۔
یہ بات کہیں تو بھی سچے، یہ اس سے مکر جائیں تو بھی صرف یہ سچے۔ ان کا اصرار ہے کہ جسے یہ غلط کہیں وہی غلط ہے۔ ان کا مزاجِ ناز غلط کو درست کہہ دے تو ان کا مطالبہ ہے اسے فوراً درست مان لیا جائے۔
حیرت ہوتی ہے یہ ایک سیاسی جماعت کا بیانیہ ہے یا موسمِ عشق کے تیور ہیں، جو ہر پہر بدل جاتے ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔