سرد شاموں میں پُرانے زخم درد سمیت لوٹ آتے ہیں اور حالات بھی کچھ یوں کہ زخم تازہ بھی رہے اور رفو کا تقاضا بھی رہے۔ دسمبر قومی زخموں کو دُہرانے کے لیے ہر سال آ جاتا ہے۔ اس ماہ کی سولہ تاریخ دو زخم تازہ کرتی ہے، سقوط ڈھاکہ اور سانحہ آرمی پبلک سکول۔
ہر بار دسمبر میں ماضی سے سیکھنے، مستقبل روشن رکھنے، قوم کو سچ بتانے، حمود الرحمن کمیشن رپورٹ عام کرنے، سانحہ آرمی پبلک سکول کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر لانے جیسے مطالبات سامنے آتے ہیں اور سیاسی رہنما بیانات بر سیاسی ضروریات ماضی کے اس تاریک باب کو کھولنے اور فراموش نہ کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔
ہر سیاسی اپوزیشن ان دونوں معاملات کی موجودہ سیاسی دور سے مماثلت اور ان جیسے سانحوں سے بچنے کے لیے بھر پور مہم بھی چلاتی ہے۔
کچھ ٹوئٹر ٹرینڈ، کچھ بیانات اور ضرورت کے تحت اینٹی سیاست کا ڈھول پیٹا جاتا ہے پھر چنداں غم نہیں کہ سترہ تاریخ کو بھُلا دیا جائے کہ یہ دو سانحے ہوئے ہی کیوں تھے۔
سقوط ڈھاکہ کی جڑیں آمریت میں پیوست ہیں۔ جنرل ایوب کی طویل آمریت اور ون یونٹ جیسے فیصلوں نے قوم کو تقسیم کیا اور منقسم قوم میں تفریق اور نفاق کے بیج سے دو لخت ہونے کا راستہ ہموار کیا۔
لسانی اور قومی تفریق نے فاصلے پیدا کیے اور اُس کو طاقت کے استعمال سے بڑھاوا دے کر مملکت کو ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا۔ بدقسمتی سے تقسیم اور تفریق کا یہ عمل آج بھی جاری ہے۔
قومی زبانوں اور قومیتوں سے جس طرح لاتعلقی اختیار کی جا رہی ہے یہ خطرناک ہے۔
حال ہی میں 26 نومبر کے بعد پختونوں کی پروفائلنگ کی شکایات اور پھر ایک مخصوص گروہ کی جانب سے ہوا دینا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
قوم اور نسل کی بنیاد پر پروفائلنگ جہاں قابل مذمت عمل ہے وہیں حکومت اور ریاستی اداروں کو نہ صرف دہشت گردی کے تناظر میں اس معاملے سے نمٹنے میں احتیاط سے کام لینا ہو گا بلکہ افغان شہریوں جیسے معاملات میں حد درجہ شفافیت رکھنا ہو گی۔
سقوط مشرقی پاکستان کے کئی ایک عوامل تھے تاہم گرتی ہوئی دیوار کو آخری دھچکا انتخابات میں عوامی رائے کو مسترد کرنے سے لگا۔
بدقسمتی کہ مینڈیٹ 1971 میں بھی تسلیم نہ ہوا، مینڈیٹ سے آج بھی انکار کیا جا رہا ہے بہر حال آئین 71 میں موجود نہ تھا مگر اب آئین موجود ہے اور اُس پر عمل درآمد پاکستان کی بقا کے لیے ضروری۔
جمہوریت اور ریاست کے معنی گویا بدل چُکے ہیں۔ اختیار اور اقتدار کیا۔۔ مختار اور مقتدرہ کون ہیں؟
ریاستی عمل دراری اور طاقت کے مراکز عدم توازن کا شکار ہیں، نئے سانحوں سے بچنے کے لیے کسی مکالمے، مذاکرے کا آغاز کیوں ممکن نہیں اور اس کے لیے کیا کیا اقدامات کرنا ہوں گے ریاست اور سیاست کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا۔
بلاشُبہ موجودہ حالات میں سیاسی واقعات کی مماثلت سے کوئی نتیجہ تو نہ نکلے گا البتہ حقائق کو سامنے رکھنا بےحد ضروری ہے۔
تحریک انصاف پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی قوت ہے جسے جماعت اور سیاسی انتظام میں لانا خود تحریک انصاف کے لیے ایک امتحان سے کم نہیں۔ تحریک انصاف کے سیاسی حامیوں کو نہ تو بحیرہ عرب کے سُپرد کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ہمالیہ کے پیچھے دھکیلا جا سکتا ہے لہذا اسے بطور جماعت تسلیم اور قبول کرنا ہو گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تحریک انصاف بھی مقتدرہ کی اہمیت سمیت دیگر سیاسی جماعتوں اور بیانیوں کو مسترد نہیں کر سکتی، سیاسی جماعتوں کے ساتھ بات چیت سے انکار اور مقتدرہ کو مختار کل سمجھنا کسی صورت سیاسی رویہ نہیں۔
میر بھی کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب، اسی عطار کے لڑکے سے دوا چاہتے ہیں۔ عمران خان ہر ’کارڈ‘ استعمال کر چُکے ہیں اور ہر کارڈ انہیں کمزور جبکہ مقتدرہ کو مضبوط کر رہا ہے۔ سیاست دیوار کے ساتھ لگ چکی ہے اور یہ سیاسی بندوبست فی الحال کسی خطرے سے دو چار بھی نہیں۔
اب تحریک انصاف مذاکرات چاہتی ہے، ناکام ہوتی سول نافرمانی سے پہلے ہی بات چیت اور مفاہمت کا دروازہ جنرل فیض کے ٹرائل سے منسلک ہے یا عمران خان کے گرد نو مئی کا گھیرا مزید تنگ ہو رہا ہے؟
عمران خان رہائی کے لیے بےچین ہیں اور رہائی مستقبل قریب میں دکھائی نہیں دے رہی۔ مذاکرات کی کامیابی کی چابی ان کے ہاتھ ہی ہے شرط خود اُن کی ضمانت ہے، کون یہ گارنٹی دے پائے گا کہ حتمی فیصلے سے قبل کپتان پیچھے نہ ہٹ جائے؟
دوسری جانب حکومت اور مقتدرہ نو مئی سے پیچھے ہٹنے کو نہ تیار ہیں اور نہ ہی اب فوج پیچھے ہٹنا افورڈ کر سکتی ہے۔
فوج اس معاملے سے پیچھے ہٹی تو خود اُنہیں اندرونی مسائل کا سامنا ہو گا۔ یہ ڈیڈ لاک کسی ایک کو توڑنا ہے۔ وہ کون ہو سکتا ہے سر دست مقتدرہ مضبوط قدموں پہ کھڑی ہے۔
مذاکرات کی میز پر بیٹھی تمام سیاسی قوتیں بند مُٹھی کے ساتھ بیٹھیں لیکن انہیں ایک ایک کر کے اپنی انگلیاں کھولنا پڑیں گی۔۔ سانحوں سے بچنے کے لیے سانحے یاد رکھنا ضروری ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔