دلہا، دلہن اور شادی: انڈیا میں ’ویڈنگ جاسوسی‘ کا پھلتا پھولتا کاروبار

جب محبت کرنے والے نوجوان شادی کرنا چاہتے ہیں تو کچھ خاندانوں کے لیے پہلا کام یہ ہے کہ کسی پنڈت یا پارٹی پلانر کو بلانے کی بجائے ممکنہ ساتھی کی تفتیش کے لیے ہائی ٹیک آلات کے ساتھ کسی جاسوس بلایا جائے۔

نئی دہلی کے ایک مال میں ایک خفیہ دفتر میں موجود جاسوس بھاونا پالیوال ممکنہ شوہروں اور بیویوں کی جانچ پڑتال کرتی ہیں۔

انڈیا میں یہ رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے، جہاں نوجوان نسل والدین کی مرضی کی بجائے محبت کی شادیوں کو ترجیح دے رہی ہے۔

یہ روایت بہت مقبول ہے کہ دونوں خاندان ازدواجی زندگی کا ساتھی چنتے وقت شادی سے پہلے بہت احتیاط سے کام لیتے ہیں، لیکن ایک ایسے ملک میں جہاں سماجی رسم و رواج تیزی سے بدل رہے ہیں، زیادہ سے زیادہ جوڑے اپنے ہم سفر کا انتخاب خود کر رہے ہیں۔

لہذا، جب محبت کرنے والے نوجوان شادی کرنا چاہتے ہیں تو کچھ خاندانوں کے لیے پہلا کام یہ ہے کہ کسی پنڈت یا پارٹی پلانر کو بلانے کی بجائے ممکنہ ساتھی کی تفتیش کے لیے ہائی ٹیک جاسوسی آلات کے ساتھ پالیوال جیسا جاسوس بلایا جائے۔

نئی دہلی میں ایک دفتر میں کام کرنے والی شیلا نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ جب ان کی بیٹی نے اپنے بوائے فرینڈ سے شادی کی خواہش ظاہر کی تو انہوں نے فوری طور پر پالیوال کی خدمات حاصل کیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شیلا، جن کا نام تبدیل کر دیا گیا ہے کیونکہ ان کی بیٹی کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ ان کے منگیتر کی جاسوسی کی گئی تھی، کا کہنا تھا کہ ’میری شادی اچھی نہیں تھی۔ جب میری بیٹی نے کہا کہ اسے محبت ہوگئی ہے تو میں اس کی مدد کرنا چاہتی تھا، لیکن مناسب جانچ پڑتال کے ساتھ۔‘

دو دہائی قبل تیجس جاسوسی ایجنسی کی بنیاد رکھنے والی 48 سالہ پالیوال کہتی ہیں کہ ان کا کاروبار پہلے سے کہیں بہتر ہے اور ان کی ٹیم ماہانہ تقریباً آٹھ کیسز دیکھتی ہے۔

ایک حالیہ کیس میں ایک کلائنٹ اپنے متوقع شوہر کی جانچ کر رہی تھیں، جس کے دوران پالیوال نے تنخواہ میں فرق کا پتہ چلایا۔

انہوں نے کہا: ’اس شخص نے بتایا تھا کہ وہ سالانہ تقریباً 70,700 ڈالر کماتا ہے، لیکن ہمیں پتہ چلا کہ وہ اصل میں 7,070  ڈالر کما رہا تھا۔‘

یہ ایک رازدارانہ کام ہے۔ پالیوال کا دفتر شہر کے ایک مال میں قائم ہے، جہاں ایک معمولی سا سائن بورڈ لگا ہوا ہے جس پر لکھا ہے کہ یہ ایک نجومی کا دفتر ہے۔ انڈیا میں عموماً خاندان شادی کی تاریخ کی پیش گوئی کرنے کے لیے نجومیوں کا رخ کرتے ہیں۔

وہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں کہ ’کبھی کبھی میرے کلائنٹ بھی نہیں چاہتے کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ وہ کسی جاسوس سے مل رہے ہیں۔‘

جاسوس کی خدمات حاصل کرنے کی لاگت 100 امریکی ڈالر  سے دو ہزار امریکی ڈالر تک ہوسکتی ہے ، جس کا انحصار نگرانی کی نوعیت پر ہے۔ یہ ان خاندانوں کے لیے ایک چھوٹی سی سرمایہ کاری ہے جو شادی پر ہی کئی گنا زیادہ خرچ کرتے ہیں۔

صرف پریشان والدین ہی اپنے متوقع داماد یا بہوؤں کی جانچ پڑتال کرنے کی کوشش نہیں کرتے، کچھ نوجوان بھی اپنے مستقبل کے شریک حیات یا شادی کے بعد مشتبہ تعلقات کی تصدیق کے لیے پس منظر کی جانچ پڑتال کروانا چاہتے ہیں۔

ایک 51 سالہ جاسوس سنجے سنگھ کے بقول ان کی ایجنسی نے صرف اس سال شادی سے پہلے کی ’سینکڑوں‘ تحقیقات کی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ’معاشرے کی ایک خدمت ہے۔‘

پرائیویٹ جاسوس اکرتی کھتری نے کہا کہ ان کی وینس ڈیٹیکٹیو ایجنسی میں تقریباً چوتھائی کیسز شادی سے پہلے کی جانچ پڑتال کے ہیں۔

انہوں نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’ایسے لوگ بھی ہیں جو یہ جاننا چاہتے ہیں کہ دلہا سٹریٹ ہے یا نہیں۔‘

دو خاندانوں کو آپس میں جوڑنے والی روایتی شادیوں میں، حتیٰ کہ جوڑے کے آپس میں بات کرنے سے بھی پہلے کئی طرح کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔

اس میں مالی تحقیقات اور اہم بات یہ ہے کہ انڈیا کی ہزاروں سال پرانی ذات پات کی درجہ بندی میں ان کی حیثیت شامل ہے۔

جب لوگ ذات یا مذہب کی سخت حدود توڑ کر شادی کرتے ہیں تو یہ بعض اوقات اتنے سنگین نتائج کا باعث بنتا ہے کہ خاندان یا معاشرتی دباؤ کی وجہ سے ان شادیوں کے خلاف ’غیرت‘ کے نام پر قتل ہو جاتے ہیں۔

ماضی میں، شادی سے پہلے اس طرح کی جانچ پڑتال اکثر خاندان کے افراد، پنڈتوں یا پیشہ ور رشتہ کروانے  والوں کے ذریعہ کی جاتی تھی۔

لیکن بڑے بڑے شہروں میں شہر کاری نے سوشل نیٹ ورکس کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور شادی کے لیے آنے والے رشتوں کی روایتی طریقوں سے تصدیق مشکل ہو گئی ہے۔

جاسوس سنجے سنگھ نے مزید کہا: ’اب روایتی شادیاں میچ میکنگ ویب سائٹس یا یہاں تک کہ ڈیٹنگ ایپس کے ذریعے بھی آن لائن ہوتی ہیں۔ ٹنڈر پر بھی شادی کے لیے رشتے آتے ہیں۔‘

اس کام میں مسائل بھی ہیں۔

محفوظ جدید اپارٹمنٹ بلاکس میں کئی طرح کی سکیورٹی کا مطلب ہے کہ ایجنٹ کے لیے پرانے الگ الگ گھروں کے مقابلے میں گھر تک رسائی حاصل کرنا اکثر کہیں زیادہ مشکل ہوتا ہے۔

سنجے سنگھ نے کہا کہ تفتیش کاروں کو داخل ہونے کے لیے ’جھوٹی کہانی‘ سنانے کے لیے اپنی چالاکی پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی ٹیمیں ’قانونی اور غیر قانونی‘ کے درمیان گرے زون میں چلتی ہیں۔

لیکن انہوں نے زور دیا کہ اس کے ایجنٹس قانون کے دائرے میں کام کرتے ہیں اور اپنی ٹیموں کو ’کچھ غیر اخلاقی نہ کرنے‘ کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ تحقیقات کا مطلب اکثر یہ ہوتا ہے کہ ’کسی کی زندگی تباہ ہو رہی ہوتی ہے۔‘

ٹیکنالوجی بھی جاسوسوں کے ساتھ ہے۔

کھتری نے ٹیک ڈویلپرز کی مدد سے اپنے ایجنٹوں کے لیے براہ راست آن لائن ریکارڈ اپ لوڈ کرنے کے لیے ایک ایپ بنائی ہے اور پکڑے جانے کی صورت میں ایجنٹوں کے فون میں کچھ نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ یہ ہماری ٹیم کے لیے زیادہ محفوظ ہے۔ اس نے ہمیں ’کم وقت اور لاگت میں جلد نتائج حاصل کرنے‘ میں بھی مدد کی۔

صرف چند ڈالر قیمت سے شروع ہونے والے نگرانی کے آلات آسانی سے دستیاب ہیں۔

ان میں روزمرہ کی اشیا میں چھپے آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگ کے آلات جیسے مچھروں کو بھگانے والے ساکٹ آلات، زیادہ جدید مقناطیسی جی پی ایس کار ٹریکر یا چھوٹے پہننے والے کیمرے شامل ہیں۔

پالیوال نے کہا کہ ٹیکنالوجی کے عروج سے تعلقات پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’ہم جتنے زیادہ ہائی ٹیک بنیں گے، ہماری زندگی میں اتنے ہی زیادہ مسائل ہوں گے۔‘

لیکن انہوں نے اصرار کیا کہ دھوکہ دہی بے نقاب کرنے کا الزام نہ تو ٹیکنالوجی پر لگانا چاہیے اور نہ ہی تفتیش کاروں پر۔

انہوں نے کہا کہ ’اس طرح کے تعلقات کسی بھی طرح قائم نہیں رہ سکتے تھے۔ کوئی بھی رشتہ جھوٹ کی بنیاد پر نہیں چل سکتا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا